میرا کاروبار دیہاتی علاقوں میں ہے، ہم کپاس، جوار، گندم وغیرہ خریدتے ہیں، معاملہ اس طرح ہوتا ہے کہ اگر کسی شخص سے ہم کپاس کا ایک من خریدتے ہیں تو اس کو 38 کلو( ایک من میں دو کلو کم ) کے پیسے دیتے ہیں،دو کلو کے پیسے ہم کاٹتے ہیں ، اور اس کو بتادیتے ہیں کہ ہم ایک من میں دو کلو کے پیسے کم دیتے ہیں، یہی ہمارے گاؤں میں رواج ہے ،کیا اس طرح کٹوتی کرنا جائز ہے یا نہیں ؟
صورت مسئولہ میں اگر مذکورہ معاملہ میں ایک من کی قیمت متعین ہوچکی ہو اور پھر خریدار دوکلو کے پیسے کاٹتا ہے تو اگر بیچنے والا اس کٹوتی پر راضی ہو اور بلا جبر وہ چھوڑتا ہو تو جائز ہے،ورنہ ناجائز ہے، دو کلو کی قیمت خریدار کے ذمہ میں رہ جائے گی دنیا میں ادا نہیں کرے گا تو آخرت میں ادا کرنا پڑے گا۔
البنایہ شرح الہدایہ میں ہے:
"(ويجوز للبائع أن يزيد المشتري في المبيع ويجوز أن يحط عن الثمن) ش: زيادة البائع للمشتري في المبيع جائزة ما دام المبيع قائما لأن المعقود عليه ما دام قائما كان العقد قائما لقيام أثره وهو الملك المستفاد في العين فإذا هلك لم تصح الزيادة لأن العدم لا يصح تغييره بخلاف الحط فإنه يصح بعد هلاك المعقود عليه، فإنه لو أمكن أن يجعل تغييرا للعقد بأن كان العقد قائما جعل تغييرا وإن لم يكن جعله تغييرا كما في حالة الهلاك جعل برءا عن الدين فصح الحط في الحالين."
(كتاب البيوع، باب المرابحة والتولية،ج:8، ص:254، ط: دارالكتب العلمية)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144506102070
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن