بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بائع كا اچها مال مہنگے داموں اور گھٹیا مال سستے داموں فروخت کرنا


سوال

 کچھ سبزی فروش  اور  پھل فروش اپنے مال سے اچھا اچھا مال چھانٹ کر  اچھے دام میں، جب کہ ہلکا مال کم دام میں فروخت کرتے ہیں ، اسی طرح بازار میں کچھ لوگ دونوں کو ملاکر بیچتے ہیں جس سے گاہک کو اپنی پسند کے مطابق مناسب دام میں سبزی اور پھل مل جاتا ہے اور جب ان کو شکایت کرتے ہیں تو یہ لوگ سبزی منڈی والوں پر الزام لگاتے ہیں کہ سبز ی منڈی سے مال ہمیں اس طرح مل رہا ہے اور ہمیں اپنا نقصان پورا کرنے کےلیے مال کو چھانٹ چھانٹ کر بیچنا پڑتا ہے ۔

سوال یہ ہے کہ ان لو گوں کا ایسا کرنا جائز ہے؟ شرعی طور پر جواب دیں ،ایک سبزی فروش کومیں نے قرآن پاک کے آخری پارہ کی سورۃ المطففین پڑھنے کا کہا تو مجھ سے حجت بازی کرنے لگا اور بہت بحث ہوئی اور بات فتوے تک آپہنچی ، لہذا  اپنی اور اس کی اصلاح کی غرض سے یہ سوال کررہاہوں ،ازراہِ کرم شریعت کی رو سے اس کا کیا حکم ہے ؟

جواب

 صورتِ مسئولہ میں پھل فروش اور سبزی فروش کومنڈی سے(اعلی وادنی ٰکی تفریق کے بغیر)خریدے ہوئے مال کو ایک  دام میں فروخت کرنایا اچھے مال کو  الگ  کرکے اچھے دام میں فرخت کرنا اور ہلکے مال کوالگ کرکے کم دام  میں  فروخت کرنے کاحق حاصل ہے ،پھل فروش اور سبزی فروش  کااس طرح فرخت کرنا تطفیف کے زمرے میں نہیں آتا  ۔البتہ اوپر اچھا اچھا رکھے اور اندر خراب والے کو،تو  یہ جائز نہیں ہے۔

بدائع صنائع میں ہے :

"ولو وصف شيئا من ذلك بأن قال ‌جيد أو وسط أو رديء فلها الموصوف، ولو جاء بالقيمة تجبر على القبول؛ لأن القيمة هي الأصل ألا ترى أنه لا يعرف الجيد والوسط والرديء إلا باعتبار القيمة فكانت القيمة هي المعرفة بهذه الصفات، فكانت أصلا في الوجوب فكانت أصلا في التسليم، فإذا جاء بها تجبر على قبولها."

(کتاب النکاح ، فصل أن لایکون مجہولا۔۔،ج: 2، ص:283 ،ط: دارالکتب العلمیۃ)

وفیہ ایضا:

"‌ للمالك ‌أن ‌يتصرف في ملكه أي تصرف شاء."

(كتاب الدعوى ، فصل فى بيان حكم الملك ،ج: 6 ، ص: 264 ،ط: دارالكتب العلمیۃ)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144308101313

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں