بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیان کردہ اعذار کی بناء پر طلاق دینے کا حکم


سوال

میری بیوی کو اس کی بہنیں یا ماں فون کرے کہ فلاں جگہ جانا ہے ۔ تو وہ مجھ سے نہیں پوچھتی اور نہ اہمیت دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ اگر ماں کے گھر پر ہوں تو وہاں سے ماموں کے یا خالہ کے گھر بھی چلی جاتی ہیں۔ مجھے بغیر بتائے ۔ اور وہ اسکول ٹیچر بھی ہیں۔ ایم اے اسلامیات  کیا ہوا ہے۔ میں بھی گورنمنٹ ملازم ہو ں میری تنخواہ ملتے ہی گھر کے خرچوں اور ماہانہ موٹر سائیکل کے پیٹرول میں ختم ہو جاتی ہیں۔ حالانکہ اس کو اسکول سٹاپ تک لے کر جانا اور واپس لانا بھی مجھے کرنا ہوتا ہے۔ لیکن پیسوں کے معاملے میں ہمیشہ مجھے نظر انداز کرتی ہیں۔ اور ہمیشہ اپنے پیسوں پر ذلیل کرتی ہیں۔جب مجھے اس کی ضرورت ہوتی ہیں تب بھی میری حاجت پوری نہیں کرتی۔ میرے بہن بھائیوں کے ساتھ بھی بغض رکھتی ہیں۔ اور ہر وقت کہتی ہیں یہ گھر میرے نام کر دو حالانکہ آدھا گھر اس کے نام پر ہے۔ بقایا بھی آدھا مانگ رہی ہے۔ میرا بھی دل چاہتا کہ سب کچھ اس کے نام کر دو ۔ مگر اس کا دل بہت سخت ہے۔ میرے ساتھ تعاون نہیں کرتی ۔ ایسی عورت کے بارے میں قرآن اور حدیث میں کیا حکم ہے۔ اگر میں اس سے جان چھڑا لوں تو گناہ تو نہیں ہوگا۔ گھر میں ایسے کپڑے اور حلیہ بنایا ہوتا ہے جیسے کام والی ماسی ہو ۔ اور جب اسکول یا کہیں ماں کے گھر جائے تو بن ٹھن کے جاتی ہے۔ میں کہتا بھی ہوں کہ شریعت کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورت کو شوہر کے لیے بن سنور کے رہنے کا حکم دیا ہے۔  حالانکہ فقہ بھی پڑھی ہوئی ہے ۔ حافظ قرآن ہے لیکن پھر بھی آج تک اس عورت کو میں سمجھ نہیں پایا۔

جواب

صورت مسئولہ میں سائل  اور اس کی بیوی کو چاہیے کہ دونوں ایک دوسرے کی رعایت کریں اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی کوشش کریں ۔سائل کو چاہیے کہ  بیوی کی  مالی ضروریات اپنی وسعت کے مطابق حلال کمائی سے   پوری کرنے کی کوشش کرے اور بیوی سے نہ کمائی کا مطالبہ کرے اور نہ اس کے مال پر اپنی نظر رکھے۔ بیوی کو چاہیے کہ وہ خود کمانے نکلنے کے بجائے خانگی امور کی دیکھ بھال کرے اور شوہر کی خدمت کرے ، شوہر جو کماتا ہے اس پر صبر و شکر کے ساتھ قناعت کرے،شوہر کی ازدواجی حقوق بھی ادا کرے ، اور سسر والوں سے بھی خوش اخلاقی سے پیش آئے اور شوہر کی اجازت کے بغیر اپنی والدہ، خالہ اور ماموں کے گھر نہ جائے۔

نیز اگر کسی صورت دونوں میں نباہ نہ ہو سکے اور دونوں ایک دوسرے کے حقوق ادا نہ کرسکیں  تو پھر سائل بیوی کو ایک طلاق رجعی دے دے۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"(الأصح حظره) (أي منعه) (إلا لحاجة) كريبة وكبر والمذهب الأول كما في البحر وقولهم الأصل فيه الحظر، معناه أن الشارع ترك هذا الأصل فأباحه

(قوله وقولهم إلخ)..... ولهذا قالوا: إن سببه الحاجة إلى الخلاص عند تباين الأخلاق وعروض البغضاء الموجبة عدم إقامة حدود الله تعالى، فليست الحاجة مختصة بالكبر والريبة كما قيل، بل هي أعم كما اختاره في الفتح، فحيث تجرد عن الحاجة المبيحة له شرعا يبقى على أصله من الحظر، ولهذا قال تعالى {فإن أطعنكم فلا تبغوا عليهن سبيلا} [النساء: 34] أي لا تطلبوا الفراق، وعليه حديث «أبغض الحلال إلى الله الطلاق» قال في الفتح: ويحمل لفظ المباح على ما أبيح في بعض الأوقات أعني أوقات تحقق الحاجة المبيحة اهـ وإذا وجدت الحاجة المذكورة أبيح وعليها يحمل ما وقع منه صلى الله عليه وسلم ومن أصحابه وغيرهم من الأئمة صونا لهم عن العبث والإيذاء بلا سبب."

(کتاب الطلاق، ج نمبر۳، ص نمبر ۲۲۷، ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503100682

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں