بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیع مساومہ کا حکم


سوال

کیا مساومہ  لین دین اسلام میں درست ہے؟

جواب

واضح رہے کہ بیع مساومہ میں فروخت کنندہ (Seller)اپنی اصل لاگت اور اُس میں شامل منافع بتانے کا پابند نہیں ہوتا اور نہ ہی خریدار اُسے بتانے پرمجبور کر سکتا ہے، بس اُس نے قیمت فروخت بتا دی ہے، اب اگر خریدار خریدنا چاہےتو خریدلے ورنہ نہ خریدے،شرعی اعتبارسے کاروبار کی یہ شکل   درست   اور جائز ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں  بیع مساومہ  کی اسلام میں اجازت ہے،جس کے تعریف یہ ہے ،کہ بائع اور مشتری جس قیمت پر اتفاق کر لیں اس قیمت پر بیچنے کا نام بیع مساومہ ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"مساومة وهو بيع بالثمن الذي يتفقان عليه."

(كتاب البيوع، الباب الثاني فيما يرجع إلى انعقاد البيع، الفصل الأول فيما يرجع إلى انعقاد البيع، ج:3، ص:4، ط: رشيدية)

موسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ میں ہے:

"المساومة في اللغة: المجاذبة بين البائع والمشتري على السلعة وفصل ثمنها ."

(حرف المیم، مساومة، ج:37، ص:159، ط: دارالسلاسل)

بدائع الصنائع میں ہے:

"(فأما) الذي يرجع إلى أحد البدلين وهو الثمن فينقسم في حق البدل، وهو الثمن خمسة أقسام: بيع المساومة وهو مبادلة المبيع بأي ثمن اتفق، وبيع المرابحة وهو مبادلة المبيع بمثل الثمن الأول وزيادة ربح، وبيع التولية وهو المبادلة بمثل الثمن الأول من غير زيادة ولا نقصان، وبيع الاشتراك وهو التولية، لكن في بعض المبيع ببعض الثمن، وبيع الوضيعة وهو المبادلة بمثل الثمن الأول مع نقصان شيء منه، وأما القسم الذي يرجع إلى الحكم فنذكره في باب حكم البيع إن شاء الله - تعالى ."

(كتاب البيوع، فصل في شرائط ركن البيع، ج:5، ص:134، ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506101352

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں