بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

3 جُمادى الأولى 1446ھ 06 نومبر 2024 ء

دارالافتاء

 

بیع کے وقت جو قیمت طے ہوجائے مارکیٹ ویلیو کے اعتبار سے اس میں کمی بیشی کرنے کا حکم


سوال

میں لکڑی کا کاروبار کرتا ہوں، اور کراچی سے لکڑی منگواکر ملتان میں فروخت کرتاہوں، اور مختلف لوگوں سے لکڑی خریدتاہوں، میں نے کراچی کے ایک سیٹھ سے ایک مال کا سودا کیا، اور لکڑی کا ریٹ 2300 کے حساب سے طے ہوا، میرا پہلے بھی اس کے ساتھ ادھار کا معاملہ ہوتاتھا، اس مرتبہ بھی ادھار کا معاملہ ہوا، رقم کی ادائیگی کی کوئی میعاد طے نہیں ہوئی تھی، لیکن میں نے خود اپنی طرف سے اخلاقاً رقم بھیجنا شروع کردیا، اور عام حالت سے زائد دیتا تھا، مثلاً عام حالت میں ماہانہ 10 لاکھ دیتا تو ابھی قرض کی جلدی ختم ہونے کی نیت سے ماہانہ 12 لاکھ دیتا تھا، 2 ماہ بعد اچانک انہوں نے کہا کہ مال کا ریٹ زیادہ ہوگیا ہے، لہذا اب اس مال کا ریٹ 2300 کے بجائے 2800 روپے شمار کرکے حساب بناؤں گا، اب وہ اپنی رقم کے ساتھ جو پہلے ہمارے درمیان طے ہوئی تھی اضافی ریٹ کے حساب سے مزید 52 لاکھ روپے کا مطالبہ کررہاہے، پوچھنا یہ ہے کہ کیا ان کا یہ مطالبہ کرنا درست ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں بائع(لکڑی کے مالک) کا مشتری( خریدار،سائل)  سے اضافی رقم کا مطالبہ کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ سائل پر صرف وہی قیمت(2300روپے کے حساب)  دینا لازم ہے جو دونوں نے شروع میں طے کی تھی، قیمت کے بڑھ جانے سے ثمن میں فرق نہیں آتا۔

درر الحكام شرح مجلة الأحكام میں ہے:

"الثمن المسمى هو الثمن الذي يسميه ويعينه العاقدان وقت البيع بالتراضي سواء كان مطابقا للقيمة الحقيقية أو ناقصا عنها أو زائدا عليها.

وعلى ذلك كما أن الثمن المسمى قد يكون بقيمة المبيع الحقيقية يكون أيضا أزيد من القيمة الحقيقية أو أنقص.مثال: لو باع إنسان فرسا له قيمته الحقيقية خمسين جنيها بخمسين جنيها فيكون قد باعه بقيمته الحقيقية أو لو باعه بستين فيكون قد باعه بعشرة جنيهات زيادة عن قيمته، أما لو باعه بأربعين فيكون الثمن المسمى قد نقص عن القيمة الحقيقية للفرس."

(الكتاب الأول البيوع، مقدمة في بيان الاصطلاحات الفقهية المتعلقة بالبيوع، (المادة 153) الثمن المسمى، ج:1، ص:124، ط:دار الجيل)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507102078

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں