بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 ذو القعدة 1445ھ 17 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بے قابو جانور کو فائر سے زخمی کر کے ذبح کرنا


سوال

آج کل قربانی کے طور پر جو جانور خریدے جاتے ہیں ان سے میں اکثر جانور بپھر جاتے ہیں اور قابو میں نہیں آتے اور دیگر املاک کے ساتھ ساتھ انسانوں کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں تو لوگ کیا کرتے ہیں ان کو فائر مارتے ہیں، کسی بھی اسلحہ سے اور پھر ان کو جب وہ زخمی ہوتے ہیں اور تڑپ رہے ہوتے ہیں،  ان  کی گردن پر  چھری پھیر دیتے ہیں،  مطلب تکبیر پڑھ کر ان کو ذبح کر دیتے ہیں تو کیا قربانی والے جانور کو فائر مار کر ذبح کر کے کھانا جائز ہے؟

جواب

بڑا  جانور (جیسے  گائے بیل وغیرہ ) بے قابو ہو جائے اور کسی طرح قابو میں نہ آرہا ہو تو اس کو گولی مار کر زخمی کیا جاسکتا ہے ، زخمی ہونے کے بعد فورًا تکبیر  پڑھ  کر  ذبح کیا جائے۔لیکن بلاوجہ   فائر کرکے زخمی کرنا شرعًا جائز نہیں، یہ  ظلم ہے، شریعت جانور کے ساتھ ذبح میں نرمی واحسان کا حکم دیتی  ہے۔

قربانی کے جانور کو گولیاں مارنے کا حکم

مرقاة المفاتیح  شرح مشکاة المصابیح میں ہے:

"(وإذا ذبحتم فأحسنوا الذبحة): قال النووي: يروى بفتح الذال وبغير هاء في أكثر النسخ وفي بعضها بكسر الذال وبالهاء كالقتلة (وليحد) : بضم الياء وكسر الحاء وفتح الدال المشددة ويجوز كسرها (أحدكم شفرته) : بفتح الشين أي: سكينته ويستحب أن لا يحد بحضرة الذبيحة ولا يذبح واحدة بحضرة الأخرى ولا يجرها إلى مذبحها (وليرح ذبيحته) : بضم الياء وكسر الراء أي: ليتركها حتى تستريح وتبرد من قولهم: أراح الرجل إذا رجعت إليه نفسه بعد الإعياء، والاسم الراحة، وهذان الفعلان كالبيان للإحسان في الذبح. قال النووي: الحديث عام في كل قتل من الذبائح والقتل قصاصا أو حدا ونحو ذلك وهذا الحديث من الجوامع اهـ.

وقد قال علماؤنا: وكره السلخ قبل أن تبرد وكل تعذيب بلا فائدة لهذا الحديث، ولما أخرج الحاكم في المستدرك وقال: صحيح على شرط الشيخين، عن ابن عباس رضي الله عنهما: «أن رجلا أضجع شاة يريد أن يذبحها وهو يحد شفرته، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: أتريد أن تميتها موتتين؟ هلا حددت شفرتك قبل أن تضجعها؟»."

(مرقاة المفاتيح: كتاب الصيد والذبائح 6/ 2649، ط : دار الفكر، بيروت - الطبعة: الأولى، 1422هـ - 2002م)

فقط، واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201404

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں