بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بے نمازی شخص کی نماز جنازہ پڑھنے کا حکم


سوال

جو شخص نماز نہ پڑھتا ہو، اس کا انتقال ہونے کے بعد اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی یا نہیں؟

جواب

جو شخص نماز نہ پڑھتا ہو، لیکن نماز کا انکار نہ کرتا ہو تو وہ سخت گناہ گار اور فاسق ہونے کے باوجود دائرۂ اسلام سے خارج نہیں ہوتا ہے؛ اس لیے بے نمازی شخص کا اگر انتقال ہوجائے تو اس کی نمازِ جنازہ بھی عام مسلمان کی طرح پڑھی جائے گی، البتہ پیشوایانِ امت اگر بطورِ عبرت اس کی نمازِ جنازہ نہ پڑھیں تو اس کی اجازت ہوگی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 210):

"(وهي فرض على كل مسلم مات خلا) أربعة (بغاة، وقطاع طريق) ... (وكذا) أهل عصبة و (مكابر في مصر ليلًا بسلاح وخناق) خنق غير مرة فحكمهم كالبغاة. (من قتل نفسه) ولو (عمدًا يغسل ويصلى عليه) به يفتى، وإن كان أعظم وزرًا من قاتل غيره. ... (لا) يصلى على (قاتل أحد أبويه) إهانة له، وألحقه في النهر بالبغاة."

الفتاوى الهندية (1/ 162):

"وشرطها إسلام  الميت وطهارته ما دام الغسل ممكنًا وإن لم يمكن بأن دفن قبل الغسل ولم يمكن إخراجه إلا بالنبش تجوز الصلاة على قبره للضرورة ولو صلى عليه قبل الغسل ثم دفن تعاد الصلاة لفساد الأولى، هكذا في التبيين وطهارة مكان الميت ليست بشرط، هكذا في المضمرات. ويصلى على كل مسلم مات بعد الولادة صغيرًا كان أو كبيرًا ذكراً كان أو أنثى حرًّا كان أو عبدًا إلا البغاة وقطاع الطريق ومن بمثل حالهم."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144204200021

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں