میرا پیشہ زمینوں کی خرید و فروخت کا ہے، تقریباً پانچ سال قبل میں نے ایک زمین کسی سے خریدی، جو اس کی مملوکہ زمین تھی ، کاغذات وغیرہ کے اعتبار سے بھی بالکل کلئیر تھی، پھر میں نے کچھ عرصہ بعد وہ زمین کسی دوسرے شخص (مثلاً : زید) کو فروخت کردی، زید کو فروخت کرنے کے بعد زید نے اس زمیں کی مکمل رقم مجھے حوالہ کردی اور میں نے بھی زمین کا مکمل قبضہ و تصرف زید کو دے دیا، تقریباً چار سال یہ زمین دوسرے شخص (مثلاً : زید) کے قبضہ میں رہی، کاغذات وغیرہ بھی حوالہ کردیے گئے۔
اب کچھ عرصہ قبل بعض لوگوں نے اس زمین پر قبضہ کرلیا ہے، وہ لوگ اس زمین پر رفاہی کام کرنا چاہتے ہیں۔
اس شخص یعنی مثلاً زید کا کہنا ہے کہ اس زمین پر چوں کہ قبضہ ہوگیا ہے ، لہذا اس کا مجھ سے مطالبہ یہ ہے کہ وہ نقصان میرے ذمہ ہوگا۔
آپ شرعی طور پر راہ نمائی فرمائیں کہ زید کا مطالبہ درست ہے؟
واضح ہو کہ رفاہی کام خیر و اچھائی کا کام ہے، لیکن برائی کے ذریعہ کرنا کسی طرح جائز و مقبول بات نہیں، مالک کی رضا و اجازت کے بغیر جو لوگ رفاہی کام کے لیے کسی کی ذاتی زمین پر قبضہ کر کے کام کرنا چاہتے ہیں ان کا یہ عمل نا جائز ہے اور عند اللہ بھی قبول نہیں ہے، ان کے لیے ایسا کرنا جائز نہیں ہے، لہذا وہ ناجائز قبضہ ختم کر کے زمین مالک کے حوالہ کریں، علاوہ ازیں جب آپ نے اپنی خریدی ہوئی زمین زید کو فروخت کر دی اور اس زمین کے کاغذات سرکاری اعتبار سے بھی درست اور مکمل تھے، پھر زید نے زمین اپنے قبضہ میں لے لی تو یہ معاملہ مکمل ہو گیا اور آپ کا اس زمین سے کوئی تعلق نہیں رہا، اب اگر کوئی دوسرا شخص اس زمین پر زبردستی قابض ہو جاتا ہے تو اس نقصان کا ذمہ دار زید ہی ہو گا، اگر زید اس نقصان کا ذمہ دار آپ کو ٹھہراتا ہے تو یہ درست نہیں، تاہم زید اپنی زمین سے قبضہ ختم کروانے کے لیے قانونی چار جوئی کر سکتا ہے۔
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"وأما حكمه فثبوت الملك في المبيع للمشتري وفي الثمن للبائع إذا كان البيع باتا."
(کتاب البیوع، الباب الاول، جلد:3، صفحہ: 3، طبع: دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144502100988
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن