ایک شخص عرصہ تین سال پہلے کسی بے گناہ فرد کو پھنسانے کے لیے جھوٹا مقدمہ کرتا ہے، جو کہ عدالت میں ثابت بھی نہیں کر سکا ، جس پر عدالت نے اس کے خلاف تحریری حکم نامہ جاری کرکے اس کو جھوٹا قرار دیا ، اس شخص کا بیٹا کچھ عرصہ بعد وہی ڈامائی انداز میں تحریری درخواستیں جس میں" قرآن پاک کی قسم کھاکر تحریر کر ہا ہوں "کا ذکر کرتا ہے ، جس کی انکوائری IJسندھ کی ہدایت پر DSP ناظم آباد کرتا ہے اور الزام لگانے والے کو جھوٹا قرار دیتا ہے،و ہی فرد کورٹ روم میں کلمہ کی قسم کھا کر جھوٹا بیان ریکارڈ کرواتا ہے، جو کہ حقائق سے منافی ہے، جس کی سزاابھی باقی ہے۔ایسا شخص جو صرف اپنے مفاد کی خاطر بے گناہ کو پھنسانے کی کوشش کرے، جب کہ وہ شخص اپنی ہی بیٹی کی FIR کٹوائے اور دیگر لوگوں کو بلیک میل کرے، اس کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟
صورتِ مسئولہ میں اگر سائل کا بیان واقعۃ ً صحیح اور درست ہے کہ مذکورہ شخص بے گناہ لوگوں کو پھنسانے کے لیے جھوٹے مقدمے کرتا ہے ، جھوٹی قسمیں کھاتا ہے اور عدالت میں اپنے مدعیٰ کو ثابت نہیں کر پاتا،نیز صرف اپنے مفاد کی خاطر بے گناہ کو پھنسانے کی کوششیں کرتا ہے تو ایسا شخص شرعًا فاسق ، فاجر، ظالم اور گناہ گار ہے،اس کی یہ حرکت انتہائی مذموم اور بد ترین ہے،نیز جھوٹ بولنا گناہ کبیرہ ہے ، قرآن کریم میں جھوٹوں پر لعنت ہوئی ہے،آپ علیہ الصلوۃ و السلام سے پوچھا گیا کہ: کیا مؤمن جھوٹا ہو سکتا ہے؟ آپ علیہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا: نہیں،دوسری روایت میں ہےکہ :"جب آدمی جھوٹا بولتا ہے تو اس سے جو بد بو آتی ہے، اس کی وجہ سے فرشتہ اس سے ایک میل دور ہوجاتا ہے"، لہذا مذکورہ شخص کو چاہیے کہ یہ حرکات چھوڑ کر توبہ و استغفار کرے اور جن کے ساتھ ظلم و زیادتی کی ہے، ان سے بھی معافی مانگے، ورنہ آخرت میں سخت پکڑ ہوگی۔
مشكاة المصابيح میں ہے:
"عن أبي ذر رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما يروي عن الله تبارك وتعالى أنه قال: «يا عبادي إني حرمت الظلم على نفسي وجعلته بينكم محرما فلا تظالموا۔"
(باب الاستغفار و التوبۃ، الفصل الاول: 2 / 719، ط: المکتب الاسلامی)
صحيح مسلم میں ہے:
"عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «أتدرون ما المفلس؟» قالوا: المفلس فينا من لا درهم له ولا متاع، فقال: «إن المفلس من أمتي يأتي يوم القيامة بصلاة، وصيام، وزكاة، ويأتي قد شتم هذا، وقذف هذا، وأكل مال هذا، وسفك دم هذا، وضرب هذا، فيعطى هذا من حسناته، وهذا من حسناته، فإن فنيت حسناته قبل أن يقضى ما عليه أخذ من خطاياهم فطرحت عليه، ثم طرح في النار۔"
(کتاب البر و الصلۃ،باب تحریم الظلم: 4 / 1997، ط: مطبعة عيسى البابي الحلبي وشركاه، القاهرة )
سنن الترمذی میں ہے:
"عن ابن عمر، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إذا كذب العبد تباعد عنه الملك ميلا من نتن ما جاء به۔"
(أبواب البر والصلة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، باب ما جاء في الصدق والكذب: 4 /348، ط:شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي - مصر)
و فيه ايضاً:
"عن عبد الله بن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «عليكم بالصدق فإن الصدق يهدي إلى البر، وإن البر يهدي إلى الجنة، وما يزال الرجل يصدق ويتحرى الصدق حتى يكتب عند الله صديقا، وإياكم والكذب فإن الكذب يهدي إلى الفجور، وإن الفجور يهدي إلى النار، وما يزال العبد يكذب ويتحرى الكذب حتى يكتب عند الله كذابا۔"
(أبواب البر والصلة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، باب ما جاء في الصدق والكذب: 4 /348، ط:شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي - مصر)
مسند احمد میں ہے:
"عن عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم، أنه قال: " أربع من كن فيه كان منافقا، أو كانت فيه خصلة من الأربع، كانت فيه خصلة من النفاق حتى يدعها: إذا حدث كذب، وإذا وعد أخلف، وإذا عاهد غدر، وإذا خاصم فجر ۔"
(مسند المكثرين من الصحابة، مسند عبد الله بن عمرو بن العاص رضي الله عنهما: 11 / 380، ط: الرسالۃ)
مشكاة المصابيح میں ہے:
"عن عائشة رضي الله عنها قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن العبد إذا اعترف ثم تاب تاب الله عليه۔"
(باب الاستغفار و التوبۃ، الفصل الاول: 2 / 721، ط: المکتب الاسلامی)
فقط و اللہ اعلم
فتوی نمبر : 144307101631
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن