بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شعبان 1446ھ 08 فروری 2025 ء

دارالافتاء

 

بیع صرف / ہنڈی کے متعلق مسائل ۔


سوال

مختلف الجنس کرنسی کے متعلق دو سوالوں کا جوب درکارہے ، لہذا رہنمائی فرما ئیں : 

1۔ ایک صراف کو کسی دکاندار یا گودام دار وغیرہ نے فون کیا کہ  مجھے5  لاکھ کے ڈالر خرید نے ہیں   ، ابھی ابھی ،  تو میرے اکاؤنٹ  میں بھیج دو اورآ پ کی رقم میرے پاس نقد رکھی ہوئی ہے،عصر کو میں خود بھجو ادوں گا یا اگر آپ کوئی آدمی بھیج دیں تو میں اس کو حوالہ کردوں گا ، کیوں کہ آج  کل  بہت سے دکاندار اور بزنس والے مصروفیت کیوجہ سے  رقم فورا نہیں بھجواسکتے ہیں ، جب کہ وہ رقم نقد کی صورت میں ان  کے پاس موجود ہوتی ہے اور اکثر تاجر عصر کو خود حوالہ کردیتے ہیں یا صراف کی طرف سے ایک آدمی سب دکانداروں اور گودام داروں سے  جمع کرتا ہے، کیا یہ صورت  صراف کے لیے جائز ہے ؟ 

2۔ آج کل کا معمول عام طورپر بڑےتاجروں کا یہ ہے کہوہ جب صراف  سے 35935  ڈالر ( جوکہ تقریبا  ایک کروڑ  پاکستانی  روپے بنتے ہیں )  لے کر  دیگر کو  مالک  کرنے کےلیے  حوالہ کر دیتے ہیں ،  تو اس وقت ان کے پاس پوری رقم موجودنہیں ہوتی ہے تو وہ تاجر صراف سے کہتا ہے کہ میں تم کو ایک ہفتے یا تین دن(یا  کوئی بھی مدت متعین کرے  )  میں دوں گا ، صراف اس پر راضی ہوجاتا ہے اور بازار کی قیمت سے 5روپے ریٹ اوپر کردیتا ہے ، جب کہ تاجر اور صراف دونوں اس پر راضی ہوتے ہیں ۔ 

نوٹ :  ان دونوں صورتوں میں کرنسی مختلف الجنس ہوتی ہے ، مثلا پاکستا نی روپے کے عوض ڈالر خریدنا ۔ 

جواب

صورت مسئولہ میں  دونوں معاملے بیع صرف ( کرنسی کی خرید وفروخت) کے ہیں  اور مذکورہ دونوں معاملے ناجائز ہیں ، اس لیے کہ  بیع صرف میں دونوں بدلین پر اسی مجلس میں قبضہ کرنا  ضروری ہے ،جب کہ مذکورہ دونوں صورتوں میں  ایک ہی مجلس میں جانبین سے کرنسی پر قبضہ نہیں ہورہا ہے ، پہلی صورت ڈالر ادا کرنے کے بعد دن کے آخر میں پاکستانی کرنسی دی جارہی ہے اور دوسری صورت میں دوسری کرنسی تین  دن یا ایک ہفتہ بعد ادا کی جارہی ہے ، لہذا دونوں ناجائز اور سودی معاملے ہیں  ، البتہ ان دونوں معاملوں کی جواز کی صورت یہ بن سکتی ہے کہ مذکورہ دونوں معاملوں میں عقد بیع ( مختلف الجنس کرنسی کی خرید اور فروخت کرنا )  کرنے کے بجائے قرض کا معاملہ  کیاجائے،جس کی تفصیل یہ ہوگی کہ:

پہلی صورت میں جب کوئی دکاندار یاگودام دار کسی صرا ف کو فون کرتا ہے تو  اس یہ کہے کہ مجھے 5لاکھ ڈالر  کا قرض چاہیے ،ابھی ابھی میرے اکاؤنٹ میں بھیج دے،جب صراف اس کے اکاؤنٹ میں ڈالر بھیجتا ہے تو دکاندار اس صراف کا مذکورہ رقم کے بقدر قرض دار ہو جائے گا  ، اب جب عصر کو صراف کا کوئی آدمی یا خودصراف آتا ہے  تو عصر کے وقت ان 5لاکھ ڈالر کی جو قیمت ہوگی ، اس قیمت کے بقدر پاکستانی کرنسی   دکاندار یا گودام دار اس صراف کو دے گا ، چاہے عصر تک ڈالر کی قیمت بڑھے یا کم ہوجائے ۔ 

 دوسری صورت میں جب  کوئی تاجر کسی صراف سے35935 ڈالر ( جوکہ تقریبا ایک کروڑ پاکستانی روپے بنتے ہیں )  لے کر دیگر کو مالک کرنے کےلیے حوالہ کر نا چاہتا ہے ، تو اس صورت میں بھی یہ تاجر اس صراف سے35935 ڈالر    قرض  لے اور اس کے بعد اس کو  آگے اپنے بندے کو حوالے کرنے کے لیے کہے، پھر بعد میں جب قرض ادا کرنے  کاوقت آجائے تو  اس تاجر نے جو 35935 ڈالرقرض پر لیے  تھے  ، ان ڈالروں کی جو قیمت اس دن ہوگی، وہی قیمت  تاجر اس صراف کو ادا  کرے گا ، اس سے زیادہ یا کم ادا  کرنے کی شرط لگانا سود کے زمرے میں آئے گا، اس صورت میں یہ جائز نہیں ہوگا ۔ 

بدائع الصنائع میں ہے: 

"وأما الشرائط ( فمنها ) قبض البدلين قبل الافتراق لقوله : عليه الصلاة والسلام في الحديث المشهور { والذهب بالذهب مثلا بمثل يدا بيد والفضة بالفضة مثلا بمثل يدا بيد } . وروي عن أبي سعيد الخدري أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : { لا تبيعوا الورق بالورق إلا مثلا بمثل ، ولا تشفوا بعضها على بعض ولا تبيعوا منهاشيئا غائبا بناجز } . وروي عن عبد الله ابن سيدنا عمر عن أبيه رضي الله عنهما أنه قال : لا تبيعوا الذهب بالذهب إلا مثلا بمثل ، ولا تبيعوا الورق بالورق إلا مثلا بمثل ولا تبيعوا الذهب بالورق أحدهما غائب والآخر ناجز ، وإن استنظرك حتى يلج بيته فلا تنظره إني أخاف عليكم الرماء أي : الربا، فدلت هذه النصوص على اشتراط قبض البدلين قبل الافتراق ، وتفسير الافتراق هو أن يفترق العاقدان بأبدانهما عن مجلسهما فيأخذ هذا في جهة وهذا في جهة أو يذهب أحدهما ويبقى الآخر ..."

(كتاب البيوع، فصل في شرائط الصرف، ج: 7، ص: 162- 163، ط: دار الكتب العلمية) 

وفيه أيضا: 

"ثم المعتبر افتراق المتعاقدين ، سواء كانا مالكين أونائبين عنهما كالأب والوصي والوكيل؛ لأن القبض من حقوق العقد ، وحقوق العقد تتعلق بالعاقدين فيعتبر افتراقهما ..."

(كتاب البيوع، فصل في شرائط الصرف، ج:7، ص: 164 ط: دار الكتب العلمية) 

فتاوی شامی میں ہے: 

"وفي الأشباه كل قرض جر نفعا حرام فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن."[وفي رد المحتار: ]"(قوله كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر، وعن الخلاصة وفي الذخيرة وإن لم يكن النفع مشروطا في القرض، فعلى قول الكرخي لا بأس به ويأتي تمامه."

(كتاب البيوع، فصل في القرض، ج: 5، ص: 166، ط: سعيد) 

وفيه أيضا: 

"فصل في القرض (هو) لغة: ما تعطيه لتتقاضاه، وشرعا: ما تعطيه من مثلي لتتقاضاه وهو أخصر من قوله (عقد مخصوص) أي بلفظ القرض ونحوه (يرد على دفع مال) بمنزلة الجنس (مثلي) خرج القيمي (لآخر ليرد مثله) خرج نحو وديعة وهبة."

(كتاب البيوع ، فصل في القرض، ج: 5، ص: 161)

 

فتاوی تاتارخانیہ میں ہے: 

"وفي الفتاوى الخلاصة في التصرف في القرض قبل القبض: الصحيح أنه يجوز. وفيها رجل استقرض كرى حنطة فجاء بها وقال: إنها عشرة أقفزة حنطة، ولم يعرف المستقرض ذلك إلا بقول يسعه أكلها."

(كتاب البيوع، الفصل الرابع والعشرون في القروض، ج: 9، ص: 395، ط: مكتبة زكريا بديوبند الهند) 

فتاوی ہندیہ میں ہے: 

"وأما شرائط الصحة فمنها رضا المتعاقدين. ومنها أن يكون المعقود عليه وهو المنفعة معلوما علما يمنع المنازعة فإن كان مجهولا جهالة مفضية إلى المنازعة يمنع صحة العقد وإلا فلا..."[إلى أن قال: ]"ومنها أن تكون الأجرة معلومة. ومنها أن لا تكون الأجرة منفعة هي من جنس المعقود عليه كإجارة السكنى بالسكنى والخدمة بالخدمة..."

(كتاب الإجارة، الباب الأول في تفسير الإجارة...، ج: 4، ص: 409 و414، ط: دار الفكر) 

امداد الفتاوی میں ہے: 

[ منی آرڈر کے متعلق سوال کے جواب فرماتے ہیں :] ’’ منی آرڈر مرکب ہے دو معاملوں سے ، ایک قرض جو  اصل  رقم سے متعلق  ہے،   دوسرے اجارہ جو فارم کے لکھنے اورروانہ کرنے پر  بنام فیس  کے دی جاتی ہے ، اور دونوں معاملے جائز ہیں  ، پس دونوں کا مجموعہ بھی جائز ہے اور چونکہ اس میں ابتلا ئے  عام ہے ،  اس  لیے یہ  تأ ویل کر کے  جواز کا فتویٰ مناسب ہے ، و شوال ۱۳۲۳ (حوادث او ۲ ، ص ۱۵۴)۔‘‘

(ج: ۳، ص: ۱۴۶ ، ط: دارالاشاعت) 

فقط واللہ أعلم 


فتوی نمبر : 144604102029

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں