بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیع سلم میں ادائیگی کا وقت مجہول ہو تو بیع کا حکم


سوال

جو چیز بعد میں ملے اور پیسہ پہلے دے دیئے جائیں مثلاً: ایک بندہ ابھی 2ہزار روپیہ من کے حساب سے گندم خریدتا ہے اور پیسہ پہلے دے دیتا ہے اور گندم کٹائی کے ٹائم ملےگی ،یہ  جائز ہے یا نہیں ؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں  ذکر کردہ صورت بیعِ سلم کی ہے اور ''سلم''    کہتے ہیں  مجلسِ عقد میں  نقد رقم  دے کر کوئی چیز ادھار  خریدنا،یعنی   خریدار ، فروخت کرنے والے کو ابتدا میں پوری  رقم دے، اور ایک متعین مدت کے بعد فروخت کرنے والا اس کو وہ چیز لاکر دےدےاور اس کی شرائط میں سے ایک  بنیادی شرط یہ ہے  کہ اس چیز کی ادائیگی کا وقت معلوم ہو کہ کب وہ خریدار کے حوالہ کی جائے گی۔

صورت ِ مسئولہ میں   فصل کے کاٹنے کا وقت چوں کہ معلوم نہیں ہے ؛اس لیے اس طرح معاملہ کرنا شرعاً جائز  نہیں ۔البتہ اس کے جواز کی صورت یہ ہے کہ معاملہ اس طرح کیا جائے کہ فلاں مہینہ کی فلاں تاریخ کو  اتنی مقدار میں گندم حوالہ کروں گا ،اگر اس وقت تک فصل کی کٹائی ہوجاتی ہے تو اتنی گندم حوالہ کی جائے ،اور اگر اس وقت تک کٹائی نہ ہوئی تو گندم حوالگی کی  مدت میں  جانبین کی رضامندی سے تاخیر بھی کرسکتے ہیں ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"(الخامس) أن يكون المسلم فيه مؤجلا بأجل معلوم حتى إن سلم الحال لا يجوز واختلف في أدنى الأجل الذي يجوز السلم بدونه عن محمد - رحمه الله تعالى - أنه قدر أدناه بشهر وعليه الفتوى، كذا في المحيط."

(کتاب البیوع،الباب الثامن عشر فی السلم ،ج:3،ص:180،دارالفکر)

وفيها أيضا:

"إذا شرط الأجل في المبيع العين فسد العقد وإن شرط الأجل في الثمن والثمن دين فإن كان الأجل معلوما جاز البيع وإن كان مجهولا فسد البيع ومن جملة الآجال المجهولة البيع إلى ‌النيروز والمهرجان وقد ذكر محمد - رحمه الله تعالى - مسألة ‌النيروز والمهرجان في الجامع الصغير وأجاب بالفساد مطلقا والصحيح من الجواب في هذه المسألة أنهما إذا لم يبينا نيروز المجوس أو نيروز السلطان فالعقد فاسد وإذا بينا أحدهما وكان يعرفان وقته لا يفسد العقد هكذا في المحيط ولم يجز بيع إلى قدوم الحاج والحصاد والدياس والقطاف والجذاذ كذا في الكافي."

(کتاب البیوع،الباب العاشر فی الشروط اللتی تفسد البیع،ج:3،ص:142،دارالفکر)

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے :

"واتفق العلماء على أن الأجل لابد من أن يكون معلوما، لقوله تعالى: {إذا تداينتم بدين إلى أجل مسمى} وقول النبي صلى الله عليه وسلم: «إلى أجل معلوم» ولأنه بمعرفة الأجل يتحدد الوقت الذي يقع فيه قضاء المسلم فيه، فإذا جهل الأجل لم يفد معرفة ذلك، ووقع رب السلم في الغرر. ولكنهم اختلفوا في كيفية العلم بالأجل.

فقال الحنفية والحنابلة والشافعية: لابد من تحديد زمان بعينه، لايختلف، فلا يصح التأجيل للحصاد والدراس والنيروز (اليوم الأول من السنة القبطية، وهوأول الربيع) والمهرجان (أول الخريف) وعيد النصارى وقدوم الحاج والصيف والشتاء، ونحوها ، ودليلهم: أن الرسول صلى الله عليه وسلم قال: «إلى أجل معلوم» والتحديد بهذه الأوقات مثار النزاع، لأنه غير معلوم إذ أنه يتقدم ويتأخر، ويقرب ويبعد، ويؤيده ماروي عن ابن عباس أنه قال: «لاتتبايعوا إلى الحصاد والدياس  ولاتتبايعوا إلا إلى شهر معلوم» ."

(المبحث السادس انواع البیوع،المطلب الثالث شروط المسلم فیہ ،ج:5،ص:3613،دارالفکر)

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے :

"وفي اجتهاد الحنفية: إذا حل أجل تسليم المسلم فيه، وانقطع وجود المبيع بحيث يتعذر تسليمه، كان المشتري بالخيار بين أن ينتظر وجوده، أو يفسخ البيع، ويسترد الثمن."

(المبحث السادس انواع البیوع ،المطلب الثانی شروط السلم،ج:5،ص:3615،دارالفکر)

فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے :

"پیشگی روپیہ دے کر فصل پر گندم  بہ نرخ معین لینے کا معاملہ درست ہے ،اس کا نام شرع میں " بیع سلم "ہے ،جس کو عرف میں " بدھنی " کہتے ہیں ،شرعاً اس کے جواز کی چند شرطیں ہیں وہ پوری ہوجاویں تو یہ معاملہ درست ہے ۔۔۔۔۔۔۔دوسر ے:وقت لینے گندم کا معین کیا جائے  کہ فلاں مہینہ کی فلاں تاریخ کو گندم لوں گا ."

(خریدوفروخت کا بیان ،بیع سلم ،ج:14،ص:424،دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506100322

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں