ہمارے کاروبار لین دین میں ایک پارٹی کے ذمہ کچھ رقم ہے ،جس کاوہ پارٹی اقرار بھی کررہی ہے،لیکن ساتھ میں پارٹی یہ کہتی ہے کہ ایک سال کی مہلت دو،جبکہ ہمیں اپنی رقم ضائع ہونے کا خدشہ ہے،اس لیے ہم ان سے یہ طے کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اس رقم کے بدلے ہمیں ایک پلاٹ یا کوئی پراپرٹی دیں، یعنی ہمارے نام کردیں،ہم ان سے خریدنا نہیں چاہتے،صرف ضمانت کے طور پر لینا چاہتے ہیں اور اس کا طریق ہم نے یہ طے کیا ہے کہ :
وہ ایک سال کے لیے سیل ایگریمنٹ بنالیں،یعنی ہماری رقم اگر 80 لاکھ روپے ہے،تو 80 لاکھ کا پلاٹ ہمارے نام کردیں،قبضہ میں لینا مقصود نہیں ہے،جو ایک سال بعد جب ادائیگی کا وقت ہوگا تو اس وقت پلاٹ کی مارکیٹ قیمت کے حساب سے ہمیں رقم ادا کریں،یعنی اگر پلاٹ ایک کروڑ کا ہوجائےتو ایک کروڑ ادا کرکے پلاٹ واپس لے لیں اور اگر سستا ہوجائے تو اتنی قیمت ادا کریں،پھر ہم بھی مزید رقم کا مطالبہ نہیں کریں گے اور یہ پلاٹ جب وہ ہمارے قبضہ میں نہیں دیں گے خود استعمال کریں گے تو ایک سال تک اس کا کرایہ بھی ہمیں اداکریں ،مارکیٹ کے حساب سے اس کو buy back کہاجاتاہے۔ لیکن مارکیٹ اور پارٹی کہتی ہے کہ buy back کرنا حرام ہے، اب پو چھنا یہ ہے کہ اس سلسلے میں راہ نمائی فرمائیں کیا یہ طریقہ غلط ہے؟ اور اس کا صحیح طریقہ کیا ہے؟
واضح رہے کہ قرض کی وصولیابی کو یقینی بنانے کے لیےبطور ضمانت مقروض سے مکان یا کوئی بھی قیمتی چیز لے کر اپنے پاس رکھناشرعاً جائز ہےاور اس کی حیثیت محض ضمانت کی ہوتی ہے، بطور ضمانت رکھی ہوئی چیز کو” گروی“ کہاجاتاہے، گروی میں رکھے جانے کے بعد بھی بطورضمانت رکھی ہوئی چیز (گروی) اس کے اصل مالک کی ہی ملک رہتی ہے؛ البتہ قبضہ مرتہن (جس کے پاس گروی رکھی ہوئی ہے) کا ہوتا ہے، لیکن اس کے لیے گروی سے فائدہ اٹھانا یا قرض کی واپسی پر اضافی رقم کا مطالبہ کرنا یا کسی قسم کے منافع کا مطالبہ کرناجائز نہیں ہوتا، اس تفصیل کی روشنی میں:
صورت مسئولہ میں سائل نے جو صورت ذکرکی ہے، اس کی حیثیت ”بطور گروی کی ہے اور مکان پا پلاٹ کا گروی میں رکھنا جائز ہے،لیکن اس کی جو صورت سائل نے متعین کی ہےکہ ضمانت کے طورپر ایک پلاٹ دے، اور رقم کی ادائیگی کے وقت گر وی پر لیے ہوئے مکان کی جو قیمت ہوگی،اگرزیادہ قیمت ہوجائے تو زیادہ ادا کرے اور اگر کم قیمت ہوجائے تو بھی کم قیمت ہی اداکرے تو یہ صورت قمارمشتمل ہے، جوکہ ناجائز ہے ،نیز سائل کا گروی پر لیے ہوئے مکان کے کرایہ کا مطالبہ کرنا ،کہ جب تک رقم اد انہ کی جائی ، اس وقت تک اس گروی پر لیے ہوئے مکان کا کرایہ جو ہو،وہ مجھے ادا کیا جائے،یہ گروی کے منافع حاصل کرنے کا مطالبہ کرنا ہے، اس لیےیہ صورت( بائی بیک) ناجائز اور حرام ہے۔جائز صورت یہ ہے کہ:
سائل (قرض خواہ) بطور ضمانت کوئی بھی قیمتی چیز رکھ لے، اس کو استعمال اور اس سے کسی قسم کا انتفاع حاصل نہ کرے اور قرض کی مدّت پوری ہونے پر اولاً قرض خواہ مالک سے قرض کا مطالبہ کرے، اگر قرض وصول نہ ہو تو مالک کی اجازت سے اس چیز کو فروخت کرکے اپنا قرض وصول کرلے تو شرعاً اس کی اجازت ہوگی، اور اس کے بعد اگر کچھ رقم بچ جائے تو زائد رقم ضرور واپس کرے۔
فتاوی شامی میں ہے:
’’لا يحل له أن ينتفع بشيء منه بوجه من الوجوه وإن أذن له الراهن؛ لأنه أذن له في الربا؛ لأنه يستوفي دينه كاملاً فتبقى له المنفعة فضلاً؛ فتكون رباً، وهذا أمر عظيم، قلت: وهذا مخالف لعامة المعتبرات من أنه يحل بالإذن إلا أن يحمل على الديانة وما في المعتبرات على الحكم.ثم رأيت في جواهر الفتاوى: إذا كان مشروطاً صار قرضاً فيه منفعة وهو رباً، وإلا فلا بأس به ا هـ ما في المنح ملخصاً....... قال ط: قلت والغالب من أحوال الناس أنهم إنما يريدون عند الدفع الانتفاع، ولولاه لما أعطاه الدراهم وهذا بمنزلة الشرط، لأن المعروف كالمشروط وهو مما يعين المنع."
(كتاب الرهن ، ج: 6، ص: 483، ط: دارالفكر)
فتاویٰ شامی میں ہے :
"(لا انتفاع به مطلقا) لا باستخدام، ولا سكنى ولا لبس ولا إجارة ولا إعارة، سواء كان من مرتهن أو راهن (إلا بإذن) كل للآخر، وقيل لا يحل للمرتهن لأنه ربا، وقيل إن شرطه كان ربا وإلا لا....قال ط: قلت والغالب من أحوال الناس أنهم إنما يريدون عند الدفع الانتفاع، ولولاه لما أعطاه الدراهم وهذا بمنزلة الشرط، لأن المعروف كالمشروط وهو مما يعين المنع، والله تعالى أعلم".
(كتاب الرهن، ج : 6، ص : 482، ط : دار الفکر)
الاشباہ والنظائرمیں ہے:
"كل قرض جر نفعا حرام فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن كما في الظهيرية وما روي عن الإمام أنه كان لا يقف في ظل جدار مديونه."
(کتاب المداینات، باب کل قرض جرنفعاً، ص: 226، ط: دار الكتب العلمية)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144604100018
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن