بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بواسیر کے مریض کی امامت کا حکم


سوال

کیا بواسیر کا مریض تراویح پڑھا سکتا ہے، یا سماعت کرسکتا، اور اگر بواسیر کی تکلیف نہ ہو ،مگر اس کے ساتھ گیس کی بیماری ہو، یعنی بار بار ہوا خارج ہو ،تو ایسا شخص امامت یا سماعت کرسکتا ہے یا نہیں ،یا کوئی ایسی  صورت ہے،جس میں وہ امامت یا سماعت کرسکتا ہو ،جیسے مسجد میں کوئی نماز پڑھا نے کےلیے نہ ہو ،سب غیر حافظ ہو یا سننے کیلئے کوئی حافظ نہ ہو یا حافظ ہو، لیکن اس کو قرآن صحیح یاد نہ ہو ،یا اس کے علاوہ کوئی صورت بنتی ہو، تو اس سلسلے میں آپ راہ نمائی  فرمائیں؟

جواب

واضح رہے کہ اگر کسی شخص کوبواسیر کا عارضہ اس طور پر لاحق ہے ،کہ خون یا رطوبت مسلسل خارج ہوتی رہتی ہو، اور ایک نماز کے مکمل وقت میں اس کو اتنا وقت بھی نہ ملتا ہو کہ وہ وضو کر کے  پاکی کی حالت میں  فرض  نماز ادا کر سکے یا پڑھاسکے،تو اس صورت میں یہ شخص شرعاً معذور کہلائے گا، اس عذرکی موجودگی میں یہ شخص صحت مند افراد کی امامت نہیں کرواسکتا،اور اگر بواسیر کا مرض اس حالت تک نہ پہنچا ہو ،یعنی مسلسل خون یا رطوبت خارج نہ ہوتی ہو،تو یہ آدمی  معذور نہیں ہوگا، اس کی امامت درست ہے، بشرطیکہ وضو کے بعد نماز مکمل کرنے تک رطوبت خارج نہ ہو، اگر  اس دوران رطوبت خارج ہوگی ،تو نماز  فاسد ہوجائے گی،نیز ریح اور رطوبت میں محض شک سے نماز فاسد نہیں ہوگی، جب تک کہ نجاست یا ریح کے نکلنے کا یقین نہ ہو، اگرمذکورہ شخص  شرعی معذور نہ ہو، لیکن کامل اطمینان بھی نہ ہو، بلکہ رطوبت کے خارج ہونے کا اندیشہ  رہتاہو تو امامت سے اجتناب کیا جائے۔

معذور شخص کے لیے شرعی حکم یہ ہے، کہ ہر نماز کا وقت داخل ہونے  کے بعد ایک مرتبہ وضو کرلے اور نماز پڑھے ، اگر وضو کے بعد جس بیماری کی وجہ سے وہ معذور کے حکم میں ہوا ہے،  اس کے  علاوہ کوئی اور وضو ٹوٹنے والی چیز  صادر ہو تو دوبارہ وضو کرے ، ورنہ (اس نماز کے پورے وقت میں) دوبارہ  وضو کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل اگر مذکورہ تفصیل کے مطابق معذور ہے،چاہے بواسیر ہو یا خروج ریح ہو،تو پھر اس کے لیے امامت کرنا درست نہیں ہے،البتہ سماعت کر سکتا ہے۔

اور اگرمذکورہ تفصیل کے مطابق معذور نہیں ہےتو پھر وہ نماز بھی پڑھا سکتا ہے، اور سماعت بھی کر سکتا ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"و صاحب عذر من به سلس بول لايمكنه إمساكه أو استطلاق بطن أو انفلات ريح ... إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة بأن لايجد في جميع وقتها زمناً يتوضؤ و يصلي فيه خالياً عن الحدث ولو حكماً؛ لأن الانقطاع اليسير ملحق بالعدم."

(باب الحيض، مطلب في أحكام المعذور، ج:1، ص:305، ط: سعيد)

و فیہ ایضاً:

"ولا طاهر بمعذور".

(باب الإمامة، ج:1، ص:578، ط: سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولا يصلي الطاهر خلف من به سلس البول ولا الطاهرات خلف المستحاضة وهذا إذا قارن الوضوء الحدث أو طرأ عليه. هكذا في الزاهدي."

(كتاب الصلاة، الباب الخامس في الإمامة، الفصل الثالث في بيان من يصلح إماما لغيره، ج:1، ص:84، ط: رشیدیه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409100970

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں