بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بواسیر کے علاج کے لیے تیل میں چھپکلی ڈال کر چولہے پر گرم کرنے کے بعد متأثرہ جگہ پر لگانے کا حکم


سوال

 مجھےبادی بواسیرکی شدیدتکلیف ہے،کچھ لوگوں نےا س کاعلاج بتلایا ہے کہ چھپکلی کومارکےاسےسرسوں کےتیل میں ڈال کر آگ پرجلائیں پھرچھپکلی نکال کرپھینک دیں اور تیل ٹھنڈاہونےپر متاثرہ جگہ پر دن میں تین بار لگائیں۔کیایہ علاج شرعا جائزہے؟اوراگریہ تیل استعمال کیا جائے تووہ جگہ جہاں تیل لگایا گیا ہے وہ پاک ہوگی یانہیں؟پاک نہ ہونےکی صورت میں پاک کرنےکاطریقہ کیا ہوگا؟صابن سےدھونا ضروری ہوگا یا صرف پانی سے دھونے سے طہارت حاصل ہوجائے گی؟

جواب

عام گھریلو  چھپکلی چھوٹی ہوتی ہے ، اس میں بہنے والا خون نہیں ہوتا، اس لیے  اس چھپکلی کو تیل میں ڈال کر پکانے سے تیل ناپاک نہیں ہوتا، اگرچہ اس تیل کو کھانا جائز نہیں ہوگا، کیونکہ چھپکلی اگرچہ ناپاک نہیں لیکن حشرات الارض میں سے ہونے کی وجہ سے اس کا کھانا جائز نہیں۔

بہرحال اگر کوئی ماہر طبیب طب کی بنیاد پر یا کوئی تجربہ کار شخص اپنے تجربہ کی بنیاد پر تیل میں چھپکلی ڈال کر چولہے پر گرم کرنے کے بعد وہ تیل بواسیر سے متأثرہ جگہ پر لگانے کو علاج کے لیے مفید بتائے تو اس علاج کو اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور جسم پر ایسا تیل لگانے سے جسم ناپاک بھی نہیں ہوگا۔

 البتہ  اگر چھپکلی بڑی ہو (جس میں بہنے والا خون ہو) تو  اس کو تیل میں ڈال کر پکانے سے تیل ناپاک ہوجائے گا اور ایسا تیل جسم پر لگانے سے جسم بھی ناپاک ہوجائے گا۔ جسم ناپاک ہونے کی صورت میں پانی سے دھوکر پاک کرنا کافی ہوگا، صابن سے دھونا ضروری نہیں۔

’’کفایت المفتی‘‘  میں ہے:

’’(جواب ۲۸۷):  چھپکلی میں دم سائل نہیں ہے،  اس لیے اس کے پانی میں مرنے یا پھولنے پھٹنے سے پانی ناپاک نہیں ہوگا،  اس کی دلیل بھی فقہ کی کتابوں میں صاف طور پر لکھی ہے ۔  ’’و موت مالیس له نفس سائلة لاینجس الماء‘‘،  یعنی ایسے جانور کا پانی میں مرجانا جس میں دمِ سائل نہیں پانی کو ناپاک نہیں کرتا،  پس اس قاعدے کے ماتحت ’’سام ابرص‘‘  سے کوئی ایسا جانور مراد ہوسکتا ہے جس میں دمِ سائل ہو، مثلاً گرگٹ جس میں دم سائل ہوتا ہے،  ’’سام ابرص‘‘  میں گرگٹ، چھپکلی دونوں شامل ہیں، ’’جوہرہ نیرہ شرح قدوری‘‘  میں ’’سام ابرص‘‘  کی تفسیر میں ’’الوزغ الکبیر‘‘  اسی لیے لکھا ہے، یعنی بڑا گرگٹ جس میں دمِ سائل ہوتا ہے۔‘‘

الفتاوی  الهندیة (۲۴/۱):

"و موت ما لیس له نفس سائلة في الماء لاینجسه، کالبق و الذباب و الزنابیر و العقارب و نحوهما".

فتاوی شامی(۱۸۳/۱):

"(و یجوز) رفع الحدث (بما ذکر و إن مات فیه) أي الماء و لو قلیلاً (غیر دموي کزنبور ) و عقرب و بقّ.
 (غیر دموي) المراد مالا دم له سائل؛ لما في القهستاني: أنّ المعتبر عدم السیلان لا عدم أصله حتی لو وجد حیوان له دم جامد لاینجس."

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144301200009

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں