اگر بواسیر کا خون آئے تو غسل واجب ہو گا؟
صورتِ مسئولہ میں بواسیر کے خون سے غسل لازم نہیں ہوتا، تاہم وضو کےمتعلق واضح ہو کہ اگر بواسیر اس طور پر لاحق ہے کہ خون یا رطوبت مسلسل خارج ہوتی رہتی ہو اور ایک نماز کے مکمل وقت میں اسے اتنا وقت بھی نہ ملےکہ وہ با وضو ہو کر پاکی کی حالت میں وقتی فرض نماز ادا کر سکے، تو اس صورت میں یہ شخص شرعاً "معذور "کہلائے گا۔ اور پھر جب تک کسی نماز کا مکمل وقت اس عذر کے بغیر نہ پایا جائے تب تک معذور شمار ہوگا۔
معذور شخص کے لیے شرعی حکم یہ ہے کہ ہر نماز کا وقت داخل ہونے کے بعد ایک مرتبہ وضو کرلے اور نماز پڑھے، اگر وضو کے بعد جس بیماری کی وجہ سے وہ معذور کے حکم میں ہوا ہے اس کے علاوہ کوئی اور وضو ٹوٹنے والی چیز صادر ہو تو دوبارہ وضو کرے ، ورنہ (اس نماز کے پورے وقت میں) دوبارہ وضو کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔
اور اگر بواسیر کا مرض اس حالت تک نہ پہنچا ہو یعنی مسلسل خون یا رطوبت خارج نہ ہوتی ہو تو ایسی صورت میں سائل معذور شرعی شمار نہیں ہوگا، یعنی نماز درست ہونے کے لیے مکمل طہارت ضروری ہوگی، وضو کے بعد اگر رطوبت خارج ہوجائے تو وضو باقی نہیں رہے گا، بلکہ فاسد ہوجائے گا، جس کی وجہ سے استنجا کے بعد دوبارہ وضو کرنا ضروری ہوگا، تاہم جب تک حقیقتاً نجاست کا خروج نہ ہو محض شک کی وجہ سے وضو فاسد قرار نہیں دیا جائے گا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"و صاحب عذر من به سلس بول لايمكنه إمساكه أو استطلاق بطن أو انفلات ريح ... إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة بأن لايجد في جميع وقتها زمناً يتوضؤ و يصلي فيه خالياً عن الحدث ولو حكماً؛ لأن الانقطاع اليسير ملحق بالعدم".
(باب الحيض: مطلب في أحكام المعذور ٣٠٥/١ ط سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144307102479
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن