بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کی اجازت کے بغیر جانے پر نان ونفقہ کا حکم


سوال

 میں شادی شدہ ہوں ہمارے شادی کو دس مہینے ہوئے ہیں میرے سسرال والے مزاری عقائد کے ماننے والے ہیں ، ان کا مزاروں میں مستقل آنا جانا رہتا ہے ، مزید یہ کہ ایک مزاری شحص جو ان کا رشتہ دار بھی نہیں ہے مستقل آنا جانا رہتا ہے ان کے گھر  جس کے سامنے میری سالیاں اور میری ساس اپنے شوہر سمیت یعنی ان کی موجودگی میں بے پردہ ہو کر بیٹھتی ہیں اور آپس میں اعلی گپ شپ لگا رہتا ہے ۔ شادی کے بعد ہم دونوں میاں بیوی میرے اپنے والدین کے گھر خوش وخرم زندگی گزار رہے تھے ۔ تین چار ہفتے گزرے کہ میرے سسرال والوں نے میری بیوی کو اکسانا شروع کر دیا اور پھر الگ گھر کا مطالبہ کر دیا،  میں نے اپنے تعلقات بہتر رکھنے کی خاطر کرایہ کے مکان میں رہنے کا فیصلہ کیا اور ہم کرایہ کے مکان میں آکر رہنے لگے ۔ میرے سسرال والوں کا میری بیوی کے سا تھ اور میری بیوی کا ان کے ساتھ تعلق انتہائی مضبوط تھا اور ابھی بھی ہے ۔ میری بیوی ان لوگوں کی ہر ایک بات مانتی ہے ، اس کی ماں اور بہنوں کی کہی ہوئی باتیں پتھر کی لکیر ہوتی ہیں ، اس کے لیے اس کے ماں باپ ہی سب کچھ ہیں اور انہی کے مشورہ پر چلتی ہے ، اس کے سامنے میری باتوں کی کوئی حیثیت نہیں محض وقتی طور پر ۔ سات آٹھ مہینے ایسے ہی چلتا رہا میں صبح سے رات تک روزگار کے لئے نکلتا اور میری بیوی میکے میں رہتی تھی اور رات واپس آجاتی تھی ۔ وہ نا محرم شخص میرے سسرال کے یہاں ہوتا تھا مجھ سے رہا نہ گیا  یہاں تک میاں بیوی کے درمیان انتہائی ناچاقیاں بڑھ گئیں اور نفرتیں پیدا ہو گئیں ۔ پھر ایک دن میں اپنی بیوی کو لے کر اپنے ماں باپ کے گھر مستقل سکونت کے ارادہ سے آگیا پانچ چھ دن کے بعد ( گزشتہ مہینے ۲۶ رمضان المبارک ) کو مجھے اللہ تعالیٰ نے بیٹا عطا کیا اور ۲۸ رمضان المبارک ، رات کے وقت میرے ماں باپ کے گھر ہی میں میرے سسرال والوں کے ساتھ میری شدید منہ ماری اور تلخ کلامی ہوئی ۔ میرے بیوی ہر بات میں ان کی طرف داری کر رہی تھی تو میں نے اسے اختیار دیدیا "کہ تم اپنے گھر جاسکتی ہو جب اپنی غلطی کا احساس ہو جائے تو میرے پاس آ جانا" وہ اپنی مرضی سے اپنے باپ اور بہنوں کے ساتھ بچہ لےکر گھر چلی گئی ۔ میں نے 3 وجوہات کی وجہ سے 3 شرطیں ان کے سامنے رکھیں:

1-  جب سسرال کے گھر میں سسر کے موجودگی میں بھی ان کی بچیاں بے پردہ اور بے حیاء والی زندگی اپنا رہی ہیں اور انتہائی غلط عقائد میں ڈوبے ہوئے ہیں تو میں نے بیوی پر شرط لگائی کہ اگر تم میرے ساتھ زندگی گزارنا چاہتی ہے تو تمہیں مجھے اختیار کرنا ہوگا اور اپنے ماں باپ کی طرف داری چھوڑنی ہوگی۔ تمہارے لیے تمہارے ماں باپ کے گھر کا دروازہ ہمیشہ کے لیے کھلا ہے لیکن مستقل ہفتے مہینے میں بار بار آنا جانا اس سے کم کرنا (مہینے میں 1 بار اور رات گزارنا منع) ۔

2-  ہم دونوں کے درمیان ناچاقیاں اور نفرتوں کی وجہ چونکہ اس کی ماں اور بہنوں کا اس کے کان بھرنا ، ورغلانا اور غلط درس دینا ہے تو میں نے یہ شرط لگائی کہ تم اپنے گھر والوں سے بالکل لاتعلق رہوگی مطلب کہ کال میں زیادہ تر بات چیت کرنا دن میں ٹائم ملتے ہی کال، یہ کال پہ کال کرنا یہ بند کرنا ۔

3- چونکہ تم نے اپنے ماں باپ کے گھر کو اختیار کیا لہٰذا میں نان نفقہ اور دوائی چرچہ نہیں دوںگا ۔

4- چونکہ وہ شوہر کے ساتھ زندگی بسر کرنا نہیں چاہتی تو اس صورت میں مہر واپس کا مطالبہ کرنا صحیح ہوگا یا نہیں؟ سوال یہ ہے کہ میں ان تین شرائط کی وجہ سے کہیں عند اللہ مستحقِ مواخذہ تو نہیں ہوں گا ؟ شوہر اپنی بیوی کو اپنی زندگی بنانے کے لیے فساد کی صورت میں میکے جانے سے روک سکتا ہے یا نہیں ؟ روکنے کی مدت شوہر کے چاہنے پر ہے یا شریعت میں اس کی حد بندی ہے ؟ شوہر اگر بیوی کو میکے کے ساتھ تعلق کی اجازت نہ دے تو کیا بیوی پر شوہر کی بات ماننا لازم ہے یا نہیں ؟ لڑکی کے ماں باپ کو شریعت میں بیٹی سے ملاقات پر کتنا حق دیا ہے جبکہ شوہر ان کی ملاقات پر رضامند ہو ؟ اور دوسری صورت شوہر رضامند نہ ہو ؟ براہِ کرم  رہ نمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ بیوی کے لیے ہر جائز کام میں شوہر کی اطاعت لازم اور ضروری ہے، اور شوہر جب غیر محارم مردوں کے سامنے آنے اور بے تکلفی کی باتوں سے منع کرتا ہے تو بیوی کو اس کی بات مان کر اس پر عمل کرنا چاہیے، بیوی کا   غیر محارم مردوں کے سامنے آنا چاہے خواہ اپنے گھرمیں ہویا میکے میں  دونوں جائز نہیں ہے۔شوہر کا حق ہے کہ وہ اپنی بیوی کو شرعی پردے کا پابند بنائےاور بیوی کا چاہیے کہ وہ شوہر کی اطاعت کرے اور ہر جائز حکم پر عمل کرے، بلاوجہ شوہر کی مخالفت کرنا جائز نہیں ہے۔

۱- ۲شوہر کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنی بیوی کو اپنے والدین سے بات چیت کرنے یا ملاقات سے منع کرے، ملاقات کرنے میں تفصیل یہ ہے کہ اگر والدین اس کے پاس آسکتے ہیں تو وہ آئیں، ملاقات کر کے چلے جائیں، اور اگر ان کے لیے آنا ممکن نہ ہو تو ہفتے میں ایک بار ان سے ملنے جاسکتی ہے، اگر وہ دوسرے شہر میں رہتے ہوں اور ہرہفتے آمد و رفت مشکل ہو یا شوہر خرچا برداشت نہ کرسکتا ہو تو شوہر کو بقدرِ گنجائش مناسب وقفے کے بعد ملاقات کے لیے بھیجنا چاہیے۔ البتہ فون پر بات کرنے میں اعتدال سے کام لیا جائے کہ کسی ایک وقت میں بات چیت کرکے خیریت معلوم کر لی جائے ، ہر وقت بات کرنا مناسب نہیں ہےخصوصاً جب شوہر مسلسل بات کرنے کو ناپسند کرتا ہو احتیاط ضروری ہے۔

۲-  اگر واقعۃً سائل نے بیوی کو یہ کہا تھا کہ میری اجازت کے بغیر میکے گئی نان ونفقہ اور دوائی کا خرچہ نہیں دوں گا تو ایسی صورت میں جتنے دن بیوی شوہر کی اجازت کے بغیر  میکے میں رہی گی تو ان ایام کا نان ونفقہ اور دوائی کا شوہر کے ذمہ لازم نہیں ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإذا أراد الزوج أن يمنع أباها، أو أمها، أو أحدًا من أهلها من الدخول عليه في منزله اختلفوا في ذلك، قال بعضهم: لايمنع من الأبوين من الدخول عليها للزيارة في كل جمعة، وإنما يمنعهم من الكينونة عندها، وبه أخذ مشايخنا -رحمهم الله تعالى-، وعليه الفتوى، كذا في فتاوى قاضي خان، وقيل: لايمنعها من الخروج إلى الوالدين في كل جمعة مرةً، وعليه الفتوى، كذا في غاية السروجي، وهل يمنع غير الأبوين عن الزيارة في كل شهر؟ وقال مشايخ بلخ: في كل سنة، وعليه الفتوى، وكذا لو أرادت المرأة أن تخرج لزيارة المحارم كالخالة والعمة والأخت فهو على هذه الأقاويل، كذا في فتاوى قاضي خان، وليس للزوج أن يمنع والديها وولدها من غيره وأهلها من النظر إليها وكلامها في أي وقت اختاروا، هكذا في الهداية".

 (الباب السابع عشر فی النفقات،الفصل الثانی فی السكنى، ج: ۱، صفحہ: ۵۵۶ و۵۵۷، ط: دارالفکر)

وفیہ ایضا:

"نفقة الأولاد الصغار على الأب ‌لا ‌يشاركه فيها أحد كذا في الجوهرة النيرة."

( الباب السابع عشر، الفصل الرابع فی نفقۃ الأولاد، جلد:1، صفحہ:560، ط: دارالفکر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وتجب) النفقة بأنواعها على الحر (لطفله) يعم الأنثى والجمع (الفقير) الحر ... (وكذا) تجب (لولده الكبير العاجز عن الكسب) كأنثى مطلقاً وزمن."

(کتاب الطلاق، باب النفقۃ، جلد:۳، صفحہ:۶۱۲، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501101865

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں