بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ذو القعدة 1445ھ 15 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کا کسی اور کے ساتھ ناجائز تعلقات ہوں تو ایسی صورت میں کیا شوہر طلاق دے سکتا ہے؟


سوال

 میں بحرین میں نوکری کرتا ہوں ،2019 سے ادھر  ہوں ،جنوری 2022 میں میری شادی ہوئی تھی، لیکن میری بیوی پہلے دن سے مجھے دھوکہ دے رہی ہے، میں 7 سے 8 دفعہ اس کو رنگے ہاتھوں پکڑ چکا ہوں،اس نے پہلے لڑکے سے رابطہ ختم کیا تو  ایک دوسرے لڑکے کے ساتھ  ہی سب کچھ شروع کر دیا، میں سمجھا سمجھا کے تھک چکا ہوں اور مجھے کوئی امید بھی نہیں ہے کہ وہ سدھر جاۓ گی، میں گھر سے بھی بہت دور ہوں اور بہت پریشان ہوں، میری راہ نمائی فرما دیجیے۔ 

جواب

 سائل کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی بیوی کو اپنے ساتھ رکھے،تاکہ وہ گناہ میں مبتلا ہونے سے محفوظ رہے ،اگر  سائل  کی بیوی میں مذکورہ برائیاں موجود ہیں ،لیکن وہ ان گناہوں سے صدقِ دل سے توبہ  کرلیتی ہے، اور سائل وسعتِ قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئےاسے مزید  موقع دینے کے لیے تیار ہو، تو  نباہ کی کوشش کرنا بہتر ہوگا،اگر وہ ان افعال سے باز نہیں آتی تو سائل بیوی کے بڑوں کے ذریعہ اس معاملے کو حل کرانے کی کوشش کرے ،اگر اس کے باوجودمعاملہ درست نہ ہو  تو سائل  اپنی بیوی کو طلاق دے سکتا ہے،اسے گناہ نہیں ملے گا،طلاق دینے  کا  بہتر طریقہ یہ ہے کہ بیوی کو  اس کی  ایسی  پاکی کے ایام میں  صرف ایک طلاق دے ، جس میں بیوی کے ساتھ جسمانی تعلقات قائم نہ کیے ہوں،  طلاق دینے کے بعد اگر بیوی کی عدت میں رجوع کرلیا،  تو  نکاح قائم رہے گا، وگر نہ  بعد از عدت نکاح ختم ہوجائے  گا،  جس کے بعد بیوی  کا کسی بھی دوسرے  شخص کے ساتھ نکاح کرنا جائز ہوگا۔

رد المحتار على الدر المختار میں ہے:

"لا يجب على الزوج تطليق الفاجرة.

(قوله لا يجب على الزوج تطليق الفاجرة) ولا عليها تسريح الفاجر إلا إذا خافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس أن يتفرقا اهـ مجتبى والفجور يعم الزنا وغيره وقد «قال - صلى الله عليه وسلم - لمن زوجته لا ترد يد لامس وقد قال إني أحبها: استمتع بها» اهـ ط."

( كتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع، فرع: يكره إعطاء سائل المسجد إلا إذا لم يتخط رقاب الناس، ج:6،ص:427 ، ط: دار الفكر )

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(أما) الطلاق السني في العدد والوقت فنوعان حسن وأحسن فالأحسن أن يطلق امرأته واحدة رجعية في طهر لم يجامعها فيه ثم يتركها حتى تنقضي عدتها أو كانت حاملا قد استبان حملها."

(كتاب الطلاق، الباب الأول في تفسيره وركنه وشرطه وحكمه ووصفه وتقسيمه وفيمن يقع طلاقه وفيمن لا يقع طلاقه، الطلاق السني، ج:1،ص:348 ، ط: دارالفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405100275

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں