ایک شخص نے اپنی بیوی کو ایک طلاق رجعی دی، بیوی سے اس کے بچے بھی ہیں، لیکن اس شخص نے عدت کے اندر رجوع نہیں کیا تو طلاق بائن ہوگئی ، پھر اس نے نئے سرے سے عدت کے بعد دوبارہ نکاح کیا،لیکن دوبارہ نکاح کے بعد اس نے بیوی کے ساتھ خلوت صحیحہ اور ملاقات نہیں کی تھی کہ اس نے تین طلاقیں الگ الگ ان الفاظ کے ساتھ ”طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں“ دی ہیں، تو اب اس نے جو دوسرے نکاح کے بعد تین طلاقیں دی ہیں کیا عورت پہلی طلاق ہی سے بائنہ ہوجائے گی جیسا کہ عام طور پر یہ مسئلہ کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ غیر مدخول بہا کو ایک طلاق دیتے ہی وہ نکاح سے باہر ہو جاتی ہے اور دوسری دو طلاقیں لغو ہو جاتی ہیں یہاں پر بھی یہ اصول لاگو ہوگا یا نہیں؟
صورتِ مسئولہ میں جب مذکورہ شخص نے اپنی بیوی کو ایک طلاق رجعی دی تھی اور عدت کے اندر رجوع نہ کرنے کی وجہ سے وہ عورت بائنہ ہوگئی تھی، پھر اس شخص نے جب نئے سرے سےعدت کے بعد مذکورہ عورت کے ساتھ دوسری مرتبہ نکاح کیا تو ایسی صورت میں اس کے پاس دوطلاقوں کا اختیار باقی تھا، لیکن جب اس نے دوسرے نکاح میں جماع اور خلوتِ صحیحہ سے پہلے یہ الفاظ ”طلاق دیتا ہوں“ تین مرتبہ الگ الگ دہرائے تو ایسی صورت میں پہلی بار ”طلاق دیتا ہوں“ کہنے سے ہی وہ عورت بائنہ ہوگئی، اگلی طلاق کے لیے وہ محل نہ رہی، مجموعی اعتبار سے مذکورہ شخص کی بیوی پر دو طلاقِ بائن واقع ہوگئی ہیں،اب عورت دوسری جگہ شادی کرنے کے لیے آزاد ہوگی، البتہ اگر یہ شخص پھر اسی عورت کے ساتھ نکاح کرے گا تو نکاحِ ثالث کی صورت میں اس شخص کے پاس صرف ایک طلاق کا حق ہوگا۔
یعنی اس مسئلہ میں بھی وہی حکم ہے جو عام طور پر غیرِ مدخول بہا عورت کا حکم ہے، کہ غیرِ مدخول بہا عورت کو دخول اور خلوتِ صحیحہ سے قبل تین طلاقیں الگ الگ دینے کی صورت میں وہ پہلی ہی طلاق سے بائنہ ہوجاتی ہے، بقیہ طلاقوں کے لیے محل نہیں رہتی،اس لیے کہ یہ ان گیارہ صورتوں میں سے نہیں ہے کہ جن میں نکاحِ اول کا دخول نکاحِ ثانی میں بھی معتبر مانا جاتا ہے، کیوں کہ ان تمام صورتوں میں نکاحِ ثانی عدت کے اندر ہی ہوتا ہے، لیکن مذکورہ صورت میں چوں کہ عدت کے بعد ہے تو مذکورہ مسئلہ میں چوں کہ شوہر ایک طلاق پہلے دے چکا ہے اور ایک اب دی تو مجموعی اعتبار سے اس کی عورت پر دو طلاقِ بائن واقع ہوگئی ہیں۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(نكح) نكاحا صحيحا (معتدته) ولو من فاسد (وطلقها قبل الوطء) ولو حكما (وجب عليه مهر تام و) عليها (عدة مبتدأة) لأنها مقبوضة في يده بالوطء الأول لبقاء أثره وهو العدة، وهذه إحدى المسائل العشر المبنية على أن الدخول في النكاح الأول دخول في الثاني ...
(قوله: وهذه إحدى المسائل العشر) وهي لو تزوج معتدته من نكاح صحيح، أو معتدته من فاسد فهذه ثنتان مر بيانهما. ثالثها تزوج معتدته وهو مريض وطلقها قبل الدخول فيكون فارا. رابعها فرق بينهما بعدم الكفاءة بعد الدخول فنكحها في العدة وفرق بينهما أيضا قبل الدخول. خامسها تزوج صغيرة، أو أمة ودخل بها ثم أبانها ثم تزوجها في العدة فبلغت، أو عتقت فاختارت نفسها قبل الدخول. سادسها تزوج الصغيرة، أو الأمة فاختارت نفسها بالبلوغ أو العتق بعد الدخول ثم تزوجها في العدة ثم طلقها قبل الدخول. سابعها تزوج معتدته فارتدت قبل الدخول وباقي الصور وقع في البحر مكررا بل الصورتان الأوليان واحدة فهي في الحقيقة ستة فافهم."
(كتاب الطلاق، باب العدة، 3/ 525، ط: سعيد)
وفيه أيضا:
"والرجعي لا يزيل الملك إلا بعد مضي العدة فلا يصير حالا قبلها، وقد ظهر لك بما نقلناه أن ما في الخلاصة أحد القولين، وأنه ليس في كلام الصيرفية الذي اقتصر عليه الشارح ما يفيد حلوله بالمراجعة وإن بطلت العدة بها لأن القول بحلوله بانقضاء العدة بسبب حصول الفرقة."
(كتاب الطلاق، باب الرجعة، 3/ 400، ط: سعيد)
بدائع الصنائع میں ہے:
"فان طلقھا ولم یراجعھا بل ترکھا حتی انقضت عدتھا بانت وھذا عندنا."
(كتاب الطلاق، فصل في بيان حكم الطلاق، 3/ 180، ط: سعید)
فتاوی شامی میں ہے:
"(وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع) ومنع غيره فيها لاشتباه النسب (لا) ينكح (مطلقة) من نكاح صحيح نافذ كما سنحققه (بها) أي بالثلاث (لو حرة وثنتين لو أمة) ولو قبل الدخول."
(كتاب الطلاق، باب الرجعة، 3/ 409، ط: سعيد)
وفيه أيضا:
"أن الرجعة عندنا استدامة الملك القائم ... وإنما يزول عند انقضاء العدة."
(كتاب الطلاق، باب الرجعة، 3/ 409، ط: سعيد)
مبسوطِ سرخسی میں ہے:
"ولو تزوجها قبل التزوج، أو قبل إصابة الزوج الثاني، كانت عنده بما بقي من التطليقات."
(كتاب الطلاق، باب من الطلاق، 6/ 95، ط: دار المعرفة)
مجمع الانہر میں ہے:
"فصل: طلق غير المدخول بها ثلاثًا: وقعن، وإن فرق: بانت الأولى ولا تقع الثانية ... (وإن فرق الزوج الطلاق بأن قال لغير المدخول بها: أنت طالق، طالق، طالق"، أو أنت طالق، أنت طالق، أنت طالق (بانتِ) المرأة بالتطليقة (الأولى)، لا إلى عدة، (ولا تقع الثانية)؛ لانتفاء المحل."
(كتاب الطلاق، فصل في طلاق غير المدخول بها، 2/ 183، ط: دار إحياء التراث العربي)
فتاوی شامی میں ہے:
"(ولو قال) لغير الموطوءة (أنت طالق واحدة وواحدة) بالعطف (أو قبل واحدة أو بعدها واحدة يقع واحدة) بائنة، ولا تلحقها الثانية لعدم العدة."
(كتاب الطلاق، باب طلاق غير المدخول بها، 3/ 288، ط: سعيد)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"إذا طلق الرجل امرأته ثلاثا قبل الدخول بها وقعن عليها فإن فرق الطلاق بانت بالأولى ولم تقع الثانية والثالثة وذلك مثل أن يقول أنت طالق طالق طالق وكذا إذا قال أنت طالق واحدة وواحدة وقعت واحدة كذا في الهداية."
(كتاب الطلاق، الفصل الرابع في الطلاق قبل الدخول، 1/ 373، ط: دار الفكر)
فتاوی سراجیہ میں ہے:
"صريح الطلاق قبل الدخول يكون بائنا."
(كتاب الطلاق، باب البائن والرجعي، ص: 43، ط: سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603101985
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن