بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیٹوں کا بیٹیوں کو میراث دینے سے انکار کرنا


سوال

میرے والد صاحب کا انتقال ہوا ،ورثاء میں دو بیٹے اور تین بیٹیاں اور ایک بیوہ ،بھر بیوہ کا بھی انتقال ہو گیا ،ورثاء میں دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں ،شرعی اعتبار سے والد صاحب کی جائیداد کا تقسیم کا طریقہ بتادیں ،دو بیٹے کہتے ہیں کہ والد صاحب نے یہ کہا تھا کہ میرا مال میرے مرنے کے بعد تم دونوں کا ہے ،بیٹیوں کی تو ہم نے شادی کروادی ہے ،لیکن ان کے پاس اس بات کا کوئی تحریری ثبوت نہیں ہے،اور کہتے ہیں کہ ہم آپ بہنوں کو شرعی حصہ نہیں دے سکتے ہیں ۔

جواب

1)صورت مسئولہ میں   مرحوم والدہ   کے ترکہ کی  شرعی   تقسیم  کا طریقہ کار  یہ  ہے کہ مرحومہ کے  حقوق  متقدمہ     یعنی تجہیز و تکفین کا  خرچہ نکالنے کے بعد اگر مرحومہ کے ذمہ  کوئی قرض ہو تو  اسے ادا کرنے کے بعد اگر مرحومہ نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو باقی مال کے ایک تہائی حصہ میں اسے نافذکرنے کے بعد باقی کل ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کو  7 حصوں میں تقسیم کر کے ہر ایک بیٹے کو دو حصے اور ہر ایک بیٹی کو ایک حصہ ملے گا ۔

صورت تقسیم یہ ہے :

میت 7(والدین)

بیٹابیٹابیٹیبیٹیبیٹی
22111

یعنی 100 فیصد میں سے ہر ایک بیٹے کو 28.571 فیصد اور ہر ایک بیٹی کو 14.285 فیصد ملے گا ۔

2)واضح رہے کہ  میراث میں جس طرح بیٹوں کا حق و حصہ ہوتا ہے اسی طرح بیٹیوں کا بھی شرعی حق و حصہ ہوتاہے،بیٹوں کا والد کی جائیداد پر قابض ہونااور بیٹیوں کو محروم رکھنا حرام ،قرآن کریم کی صریح تاکیدی حکم کی     مخالفت ،بندوں کی حق تلفی  ،بدترین ظلم  اور سخت  گناہ ہے ۔قرآن  کریم اور احادیث مبارکہ میں میراث سے محروم کرنے والے کے لیے  جہنم اور رسوا کرنے والے عذاب کی وعید یں آئی ہیں۔ 

قرآن مجید میں ہے :

"لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا"

(النساءآیۃ: 7)

ترجمہ:

"مردوں کے لیے بھی حصہ ہے اس چیز میں سے جس کو ماں باپ اور بہت نزدیک کے قرابت دار چھوڑ جاویں۔ اور عورتوں کے لیے بھی حصہ ہے اس چیز میں سے جس کو ماں باپ اور بہت نزدیک کے قرابت دار چھوڑ جاویں خواہ وہ چیز قلیل ہو یا کثیر ہو حصہٴ قطعی۔"

قرآن میں ہے:

"يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ"

(النساء: 11)

ترجمہ:

"اللہ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے تمہاری اولاد کے باب میں لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصہ کے برابر۔"

اللہ کا ارشاد ہے:

"وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُهِينٌ"

[النساء: 14]

ترجمہ:

"اور جو شخص اللہ اور رسول کا کہنا نہ مانے گا اور بالکل ہی اس کے ضابطوں سے نکل جاوے گا اس کو آگ میں داخل کریں گے اس طور سے کہ وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا اور اس کو ایسی سزا ہوگی جس میں ذلت بھی ہے۔"

ابن ماجہ میں ہے :

"عن أنس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من فر من ميراث وارثه، قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة"

 (کتاب الوصایا،ج:2،ص:902ط:دار احیاء الکتب العربیہ )

ترجمہ:

"جس نے كسى وارث كى ميراث كاحصہ روکا اللہ تعالی قیامت کے دن جنت سے اس کاحصہ روکیں گے۔"

 صحیح مسلم میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من اقتطع أرضا ظالما، لقي الله وهو عليه غضبان"

(کتاب الایمان ،باب وعید من اقتطع حق مسلم بیمین فاجرۃ بالنار ،ج:1،ص:124،ط:دار احیاء التراث العربی)

ترجمہ:

"جس نے ظلم کرتے ہوئے زمین روک لی وہ اللہ تعالی سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالی اس پر غصہ ہونگے (اور اس سے ناراض ہوں گے )۔"

وفیہ ایضاً:

"عن سعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من اقتطع شبرا من الأرض ظلما، طوقه الله إياه يوم القيامة من سبع أرضين»

(کتاب المساقات،باب تحریم الظلم و غصب الارضوغیرہا،ج:3،ص:1230،ط:دار احیاء التراث العربی)

ترجمہ:

"جس کسی نے زمین کی ایک بالشت (بھی)ناحق روک لی ،قیامت کے دن اللہ تعالی اسے سات زمینوں سے اس کاطوق (بناکر)پہنائے گا۔"

لہذا صورت مسئولہ میں بیٹوں کا بیٹیوں کو میراث دینے سے انکار کرنا شرعا ناجائز اور حرام ہے۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100082

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں