بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

باطل فرقوں اور مذاہب کی کتابیں جلد کرنے اور مندر سجانے والوں کو سجاوٹ کا سامان بیچنے کا حکم


سوال

 ہم کتابوں کی جلد بنانے کا کام کرتے ہیں ،یعنی کوئی کتاب پھٹی ہوئی ہو تو اس کی سلائی کر کے نیا گتا لگاتے ہیں،تو ہمارے پاس مختلف کتابیں آتی ہیں کبھی اہل تشیع کی بھی آتی ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ایسی کتابیں جس میں غیر اللّٰہ سے مدد مانگی گئی ہو یا پھر کسی ہندو کی کی کتاب ہو اور اس میں کفریہ باتیں ہوں تو اس کی جلد کر کے دینے سے کیا ہمارے ایمان پر کوئی فرق پڑتا ہے یا نہیں؟ اسی طرح اگر کوئی ہندو اپنے مندر کو سجانے کے لیے ہم سے کوئی سامان لے تو اس کو دینا کیسا ہے کیا اس سےبھی ایمان پر کوئی فرق پڑتا ہے یا نہیں ؟

جواب

صورت مسئولہ میں اہل تشیع کی کتب یا شرک و کفر پر مشتمل کتب کو جلد کرنے اور کسی ہندو کوسجاوٹ کا سامان فروخت کرنے سے ایمان پرتو کوئی فرق نہیں پڑتا اور ایسا جلد ساز اور سامان فروخت کرنے والادائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا ، البتہ مذکورہ کتب کی جلد سازی کا عمل اور ہندوؤں کو مندر کی سجاوٹ کے لیے سجاوٹ کا سامان بیچنا شرعا جائز نہیں ہے،  جلد ساز اور بیچنے والا اپنے اس عمل پر گناہ گار ہوگا اور آمدن حلال نہیں ہوگی کیونکہ جلد ساز اس جلد سازی کے ذریعہ ان کتب کو محفوظ کر کے پھیلنے والی گمراہی کا سسب  بن رہا ہے اور سجاوٹ کا سامان بیچنے والا  بھی مندر کی سجاوٹ جو کہ گناہ ہے اس کا سبب بن رہا ہے۔

محیط برہانی میں ہے:

"إذا استأجر الرجل حمالاً ليحمل له خمراً، فله الأجر في قول أبي حنيفة، وقال أبو يوسف ومحمد: لا أجر له."

(کتاب الاجارات، فصل خامس عشر ج نمبر ۷ ص نمبر ۴۸۱، دار الکتب العلمیۃ)

محیط برہانی میں ہے:

"وفي «العيون» : لو استأجر رجلاً ينحت له أصناماً أو يزخرف له بيتاً بتماثيل والأصباغ من رب البيت فلا أجر؛ لأن فعله معصية، وكذلك لو استأجر نائحة أو مغنية فلا أجر لها؛ لأن فعلها معصية."

(کتاب الاجارات، فصل خامس عشر ج نمبر ۷ ص نمبر ۴۸۱، دار الکتب العلمیۃ)

فتاوی شامی میں ہے:

"و) جاز (بيع عصير) عنب (ممن) يعلم أنه (يتخذه خمرا) لأن المعصية لا تقوم بعينه بل بعد تغيره وقيل يكره لإعانته على المعصية ونقل المصنف عن السراج والمشكلات أن قوله ممن أي من كافر أما بيعه من المسلم فيكره ومثله في الجوهرة والباقاني وغيرهما زاد القهستاني معزيا للخانية أنه يكره بالاتفاق (بخلاف بيع أمرد ممن يلوط به وبيع سلاح من أهل الفتنة) لأن المعصية تقوم بعينه ثم الكراهة في مسألة الأمرد مصرح بها في بيوع الخانية وغيرها واعتمده المصنف على خلاف ما في الزيلعي والعيني وإن أقره المصنف في باب البغاة. قلت: وقدمنا ثمة معزيا للنهر أن ما قامت المعصية بعينه يكره بيعه تحريما وإلا فتنزيها. فليحفظ توفيقا» 

فوجه قولهما: أن حمل الخمر معصية؛ لأن الخمر يحمل للشرب والشرب معصية، وقد «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم حامل الخمر والمحمول إليه» ، وذلك يدل على كون الحمل معصية 

(قوله لا تقوم بعينه إلخ) يؤخذ منه أن المراد بما لا تقوم المعصية بعينه ما يحدث له بعد البيع وصف آخر يكون فيه قيام المعصية وأن ما تقوم المعصية بعينه ما توجد فيه على وصفه الموجود حالة البيع كالأمرد والسلاح ويأتي تمام الكلام عليه."

(کتاب الحظر و الاباحۃ، فصل فی البیع ج نمبر ۶ ص نمبر  ۳۹۱، ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405101980

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں