بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

باتھ روم میں کپڑے لٹکانے کا حکم


سوال

باتھ روم میں کپڑے لٹکائے رکھنا سننے میں آیا ہے،  کہ جو کپڑے باتھ روم میں لٹکے رہتے ہیں ان کپڑوں میں مضر اثرات ہو جاتے ہیں جو کہ جلد نکلتے نہیں ہیں اس بات میں کچھ حقیقت ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں فی نفسہ باتھ روم جائے شیطانی اثرات ہے، جس سے حفاظت کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے مواقع  میں جانے کی دعا بھی بتلائی ہے،تاکہ انسان شیطانی اثرات سے محفوظ رہے، تاہم غسل خانے میں کپڑے لٹکانے میں شرعاً کوئی حرج نہیں، ضرورت کے موقع پر کپڑے لٹکائے جا سکتے ہیں ، باقی ایسے  کپڑوں میں مضر اثرات منتقل ہونے اور اس کے بہت دیر تک رہنے کی شریعت میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"(وعن زيد بن أرقم) : صحابي مشهور كذا في التقريب. قال المصنف: يكنى أبا عمرو الأنصاري الخزرجي، يعد في الكوفيين وسكنها ومات بها سنة ثمان وسبعين، وهو ابن خمس وثمانين، روى عنه عطاء بن يسار وغيره (قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: (إن هذه الحشوش) بضم الحاء المهملة جمع حش بفتح الحاء وضمها وهو الكنيف، وأصل الحش جماعة النخل لاكتنافه، ثم كني به عن الخلاء لأنهم كانوا يتغوطون بين النخيل كذا ذكره الشراح. وقال الطيبي: جمع حش وهو بالضم موضع الغائط وبالفتح البستان لأنهم قبل أن يتخذ الكنيف في البيوت كانوا كثيرا يتغوطون في البساتين (محتضرة) : أي: بحضرة الجن والشياطين يترصدون بني آدم بالأذى والفساد، لأنه موضع تكشف العورة فيه ولا يذكر اسم الله فيه (فإذا أتى أحدكم الخلاء) : أي: قرب إليه (فليقل) الأمر للندب (أعوذ بالله من الخبث) : بضم الموحدة ويسكن (والخبائث) وتقدم أنه يقول: اللهم (إني أعوذ بك من الخبث والخبائث فيتخير بين الصيغتين كذا قاله ابن حجر والأولى أن يقول هذا مرة والآخر مرة أو يجمع بينهما، أو هذا مختص بأهل الغفلة والأول لأرباب الحضور والمشاهدة، ويدل عليه أن هذا أمر وذاك فعله (رواه أبو داود، وابن ماجه) وسنده حسن".

(کتاب الطهارۃ، باب آداب الخلاء، ج:1، ص:386، ط:دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310101548

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں