کیا بیٹی اپنے باپ کے نام سے قربانی کر سکتی ہے؟جو کہ حیات ہو، بیٹی کماتی ہے اور اپنے علاوہ اپنے باپ کے نام سے قربانی کرنا چاہتی ہو۔
اگر بیٹی اپنے والد کی طرف سے قربانی کرنا چاہتی ہے تو کر سکتی ہے، اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں، البتہ اگر والد صاحبِ نصاب ہو اور اس پر قربانی واجب ہو تو بیٹی کا والد کی طرف سے قربانی کرنا اُس وقت درست ہو گا جب وہ والد کے علم میں لاکر ان کی طرف سے قربانی کرے۔
اور اگر والد کی طرف سے نفلی قربانی کی جا رہی ہو تو ایسی صور ت میں والد سے اجازت لینا ضروری نہیں، بلا اجازت بھی قربانی درست ہو گی۔
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 67) :
’’(ومنها) أنه تجزئ فيها النيابة فيجوز للإنسان أن يضحي بنفسه وبغيره بإذنه؛ لأنها قربة تتعلق بالمال فتجزئ فيها النيابة كأداء الزكاة وصدقة الفطر؛ ولأن كل أحد لا يقدر على مباشرة الذبح بنفسه خصوصا النساء، فلو لم تجز الاستنابة لأدى إلى الحرج.‘‘
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144212201001
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن