ہمارے گاؤں میں ایک شخص کے ہاں جب بھی بیٹا پیدا ہوتا، تو فوت ہوجاتا۔ اس پر اس نے منت مانی کہ اگر دوبارہ بیٹا ہوا اور وہ تندرست رہا تو اسے علمِ دین میں لگاؤں گا۔ اب جب بیٹا پیدا ہوا اور اس نے اسے علمِ دین میں لگا دیا، تو وہ اسے ہٹانے سے ڈر رہا ہے کہ کہیں بیٹے کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے۔ کیا یہ خیال درست ہے؟
جانناچاہئےکہ بیٹے کو علمِ دین میں لگانا نہ صرف دنیا میں عزت و فخر کا باعث ہے، بلکہ آخرت میں بھی والدین اور اولاد کے لیے صدقۂ جاریہ، بلند درجات اور جنت میں داخلے کا ذریعہ ہے۔ تاہم اگر کوئی یہ منت مانے کہ 'اگر میرا بیٹا ہو جائے تو میں اسے علمِ دین میں لگاؤں گا' تو ایسی منت (نذر) کو پورا کرنا لازم نہیں، لہذا منت پوری نہ کرنے کی وجہ سے بیٹے کونقصان پہنچنے کاخیال کرنادرست نہیں۔
صحیح مسلم میں ہے:
"عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إذا مات الإنسان انقطع عنه عمله إلا من ثلاثة: إلا من صدقة جارية، أو علم ينتفع به، أو ولد صالح يدعو له ".
(كتاب الوصية،باب ما يلحق الإنسان من الثواب بعد وفاتہ،ج:2،ص:41،ط:قدیمی)
الدر مع الرد میں ہے:
"(وهو عبادة مقصودة)
(قوله وهو عبادة مقصودة) الضمير راجع للنذر، بمعنى المنذور ...وفي البدائع: ومن شروطه أن يكون قربة مقصودة فلا يصح النذر بعيادة المريض، وتشييع الجنازة، والوضوء، والاغتسال، ودخول المسجد، ومس المصحف، والأذان، وبناء الرباطات والمساجد وغير ذلك، وإن كانت قربا إلا أنها غير مقصودة."
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144609101627
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن