بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1446ھ 03 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

بیٹے کا والد کے پیسوں سے اپنی والدہ کے لیے مکان خریدنے اور اس کی ملکیت کا حکم


سوال

سوال یہ ہے کہ میرے بھائی نے والد کے کاروبار کے پیسوں سے والد کی اجازت سے میری والدہ کےلیے (والدہ بوڑھی ہے، اس کو ڈاکٹر نے دھوپ لگوانے کا کہا تھا) کسی اور جگہ ایک چھت جس پر ایک کمرہ بنا تھا خریدی تھی،اور پھر اس جگہ میں والد، والدہ اور بھائی ایک ساتھ رہتے تھے،  پھر مزید تین کمرے والدین کی اجازت سے بنوائے تھے،بلکہ  والد صاحب نے گھر بنوانے کے لیے پیسے دیے تھے، اب والدین حیات ہیں لیکن اس بھائی کا چار مہینے پہلے انتقال ہوا ہےتو آیا یہ مکان مرحوم بھائی کے ترکہ میں شمار ہوگا، یا والد صاحب کی ملکیت شمار ہوگا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب سائل کے مرحوم بھائی نے  والد صاحب کے   پیسوں سے والد کی اجازت سے   اپنی بوڑھی  والدہ کے رہنے کے لیے  چھت مع ایک کمرہ خریدی تھی اور پھر اس میں  مزید تین کمرے بھی  والد ہی کے پیسوں اور ان کی اجازت سے بنوائے تو ایسی صورت میں  مذکورہ مکان اور اس میں موجود کمرےاور پورا مکان  سب والد ہی کی ملکیت شمار ہو گا، سائل کے  مرحوم بھائی کی میراث میں تقسیم نہیں ہوگا۔

فتاوی تاتار خانیہ میں ہے: 

"وسئل أيضا عن رجل له ثلاثة بنين كبار، وكان دفع لواحد منهم في صحته مالا ليتصرف فيه ففضل، وكثر ذلك فمات الاب أيختص به هذا الابن، أو يكون ميراثا عنه بينهم قال: ان اعطاه هبة فالكل له، وإن دفع إليه ليعمل فيه للاب فهو ميراث."

(فتاوى التاتارخانية، كتاب الهبة، باب: المتفرقات، 14/ 492، ط: مكتبة زكريا بديوبند، الهند)

فتاوی شامی میں ہے

"‌وفي ‌خزانة ‌الفتاوى: إذا دفع لابنه مالا فتصرف فيه الابن يكون للأب إلا إذا دلت دلالة التمليك بيري."

(حاشية ابن عابدين، كتاب الهبة، (5/ 688)، ط: سعيد)

فتاوی عالمگیری میں ہے

"‌رجل ‌دفع إلى ابنه في صحته مالا يتصرف فيه ففعل وكثر ذلك فمات الأب إن أعطاه هبة فالكل له، وإن دفع إليه لأن يعمل فيه للأب فهو ميراث، كذا في جواهر الفتاوى."

(الفتاوى العالمكيرية، كتاب الهبة، الباب السادس في الهبة للصغير، (4/ 392)، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603102179

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں