بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بات بات پر قسم کھا کر منت ماننا


سوال

اگر کوئی شخص بات بات پر منت مان لیتا ہے اور قسم کے ساتھ بات کو معلق کردیتا ہے، تو کیا ہر بات کے لیے نذر ماننا اور قسم کے ساتھ بات کو معلق کردینا درست ہے؟

جواب

واضح رہے کہ زیادہ قسمیں  کھانا شرعًا پسندیدہ نہیں،  اللہ رب العزت کے نام کی حرمت بہت زیادہ ہے،بات بات پر قسم اٹھانے سے اللہ کے نام کی حرمت وعظمت دل میں کم ہوجاتی ہے،پھر انسان قسم توڑنے میں جری ہوجاتاہےاور اللہ کے نام کی حرمت وعظمت کا خیال نہ رکھنے کی وجہ سےگناہ گار ہوتا ہے،حدیث شریف میں ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایااپنی معاملات میں زیادہ قسمیں کھانے سے پرہیزکرو کیونکہتجارتی معاملا تمیں زیادہ قسمیں کھانا کاروبار کو رواج دیتا ہے مگرپھر برکت کھو دیتا ہے، اس لئے زیادہ قسمیں کھانا مناسب نہیں،نیز منت کا حکم یہ ہے کہ جس کام کےهونے پر منت مانی جائے ،اور وه كام هو جائےتو اس منت کا پورا کرنا واجب ہو جاتا ہے ۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں بات بات پر قسمیں اٹھانا توسخت منع ہے ،البتہ اگر قسم کے ساتھ کسی  کام کے  ہونے   کی نذر(منت) مان لی تو جب وہ  کام ہو جائے گا ،تو نذر(منت) کا پورا کرنا لازم وضروری ہوگا ۔

تفسیرمظہری (اردو ترجمہ)میں آیت "وَلَا تَجْعَلُوا اللَّهَ ‌عُرْضَةً ‌لِأَيْمَانِكُمْ"کے تحت ہے:

"عرب کا محاورہ ہے"جعلتہ عرضۃً لکذا ،" یعنی فلاں کام کے واسطے شے کو میں نے گاڑھ دیا،تو اب آیت کا یہ معنی ہوں گے کہ اللہ تعالی کواپنی قسموں کا نشانہ نہ بنالو کہ ہر بات   میں اس کی قسم کھانے لگو۔قاموس میں ہے"العرضۃ الاعتراض فی الخیر والشر"اس صورت میں یہ معنی ہوں گےکہ ہروقت خدا کی قسمیں نہ کھایا کرو…….اس آیت سے ثابت ہوگیا کہ زیادہ قسمیں کھنا مکروہ  ہے اور یہ بھی کہ زیادہ قسمیں کھانے والا اللہ پر جرات کرنے والا ہے، نہ وہ صالح پرہیز گار ہوتا،اور نہ لوگوں میں صلح کرانے کےاندروہ اعتبارکےقابل ہے"۔

(تفسير مظہری ،1/333،ط:دارالاشاعت)

بہشتی زیور میں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

"مسئلہ:  بے ضرورت بات بات میں قسم کھانا بری بات ہے، اس میں اللہ تعالی کے نام کی بڑی بے تعظیمی اور بے حرمتی ہوتی ہے،  جہاں تک ہو سکے سچی بات پر بھی قسم نہ کھانا چاہیے۔"

(حصہ سوم، ص 145)

قال تعالي:

"ولا تجعلوا الله عرضة لأيمانكم أن تبروا وتتقوا وتصلحوا بين الناس والله سميع عليم (سورۃ المائدۃ:224) "

" أحكام القرآن للجصاص  "میں ہے:

"والوجه الثاني أن يكون قوله عرضة لأيمانكم يريد به كثرة الحلف وهو ضرب من الجرأة على الله تعالى وابتذال لاسمه في كل حق وباطل لأن تبروا في الحلف بها وتتقوا المأثم فيها وروي نحوه عن عائشة من أكثر ذكر شيء فقد جعله عرضة يقول القائل قد جعلتني عرضة للوم وقال الشاعر لا تجعليني عرضة اللوائم وقد ذم الله تعالى مكثري الحلف بقوله ولا تطع كل حلاف مهين فالمعنى لا تعترضوا اسم الله وتبذلوه في كل شيء لأن تبروا إذا حلفتم وتتقوا المأثم فيها إذا قلت أيمانكم لأن كثرتها تبعد من البر والتقوى.

 وتقرب من المآثم والجرأة على الله تعالى فكأن المعنى إن الله ينهاكم عن كثرة الأيمان والجرأة على الله تعالى لما في توقي ذلك من البر والتقوى والإصلاح فتكونون بررة أتقياء لقوله كنتم خير أمة أخرجت للناس وإذا كانت الآية محتملة للمعنيين وليسا متضادين فالواجب حملها عليهما جميعا فتكون مفيدة لحظر ابتذاله اسم الله تعالى واعتراضه باليمين في كل شيء حقا كان أو باطلا ويكون مع ذلك محظورا عليه أن يجعل يمينه عرضة مانعة من البر والتقوى والإصلاح وإن لم يكثر بل الواجب عليه أن لا يكثر اليمين ومتى حلف لم يحتجر بيمينه عن فعل ما حلف عليه إذا كان طاعة وبرا وتقوى وإصلاحا كما قال صلى الله عليه وسلم (من حلف على يمين فرأى غيرها خيرا منها فليأت الذي هو خير وليكفر عن يمينه)."

(تفسیر المائدۃ،2 / 42،ط:دارالکتب العلمیة)

مشکاۃ شریف میں ہے :

"وعن أبي قتادة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم «‌إياكم ‌وكثرة الحلف في البيع فإنه ينفق ثم يمحق» . رواه مسلم."

تحته في شرحه :

"2793 - (وعن أبي قتادة قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم: " وإياكم وكثرة الحلف في البيع ") أي: اتقوا كثرتها ولو كنتم صادقين، لأنه ربما يقع كذبا، ولذا ورد: «كفى بالمرء كذبا أن يحدث بكل ما سمع» ، ويؤيده حديث: الراعي حول الحمى، فقيد الكثرة احترازا عن القلة، فإنه قد يحتاج إليه فلا يدخل التحذير، ولذا جاء في بعض الطرق: رجل جعل الله بضاعته لا يشتري إلا بيمينه ولا بيع إلا بيمينه. وقال الطيبي - رحمه الله: إياكم منصوب على التحذير، أي: قوا أنفسكم عن إكثار الحلف، وإكثار الحلف عن أنفسكم كرره للتأكيد والتنفير، والنهي عن كثرة الحلف فيه لا تقتضي جواز قلتها، لأن النهي وارد على أهل السوق وعادتهم كثرة الحلف كقوله - تعالى: {لا تأكلوا الربا أضعافا مضاعفة} [آل عمران: 130] ."

(كتاب البيوع،باب المساهلة في المعاملة،ج:5،ص:1908،ط:دارالفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506102658

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں