بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1445ھ 14 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

چھوٹی بستی میں نمازِ جمعہ


سوال

 بلوچستا ن کے ضلع گوادر میں ایک جنگلی  علاقہ ہے جس  نام کلانچ ہے یہ نہ شہر ہے اور نہ شہر کے مضافات میں ہےبلکہ گوادر شہر سے 80 کلومیٹر کے فاصلہ پر  ہے یہاں  قاضی ،  پولیس سٹیشن  ،بجلی وغیرہ  کی سہولیات نہیں ہیں، کلانچ کے آدھے حصے میں ذکری فرقہ جبکہ آدھے میں مسلمان آباد ہیں  ، اس آدھے حصے میں مسلمانوں کی تقریبا    30  بستیاں ہیں،بعض  بستیاں  بیس ، تیس  اور بعض چالیس پچاس گھروں پر مشتمل  ہیں، ہر بستی میں پانچ چھ کلومیٹر  کا  فاصلہ ہے اور ہر بستی    میں الگ الگ  مسجد ہے ۔

            قطر  کے ایک شخص نے  ایک عالم دین سے رابطہ کیا  کہ کلانچ میں  جتنی مساجد ہیں آپ وہاں امام مقرر کریں  میں تنخواہ دونگا، اس عالم دین نے بل  ہڈوکی کے بستی( جو تمام بستیوں کے درمیان ہے)  میں  اپنا ایک  نائب مقرر کیا     اور اس نائب نے بل ہڈوکی کی بستی کو مرکز بناکر ایک شوری بنایا اور یہ ترتیب بنائی کہ جمعہ کی دن تمام  ائمہ مساجد   اس میں مرکز میں جمع ہوکر کارگزاری   سنائیں   اور اپنی    تنخواہ بھی وصول کریں، اس دوران انہوں اس مرکز کی مسجد میں جمعہ کی نماز شروع کی ، جمعہ کی دن پوری مسجد لوگوں سے بھر جاتی تھی، کچھ عرصہ بعد  قطر ی شخص نے تنخواہ بند کردی   ، چوں کہ ائمہ ،  کلانچ کے باہر کے تھے  اس لیے سب چلے گیے اور یہ سلسلہ ختم ہوا،  اور جو ائمہ   کلانچ کے تھے انہوں نے یہ کہتے ہوئے   اس مرکزی مسجد میں آنا چھوڑ دیا کہ  یہاں تو جمعہ کی نماز پڑھنا جائز نہیں   ہم نے مفتیان سے پوچھا تو انہوں نے بھی کہا کہ ایسے علاقوں میں جمعہ جائز نہیں۔جب اس شخص (نائب) سے پوچھا   تو اس نے کہا کہ  یہ جنگل کے لوگ ہیں، جمعہ  کے ذریعے ان میں  کچھ دینداری آجائے    اس لیے  ہم یہاں جمعہ پڑھتے   ہیں۔

اب سوال یہ  ہے کہ اس مذکورہ جگہ میں جمعہ پڑھنا جائز تھا یا نہیں اگر ناجائز تھا تو اب  چونکہ  دس سال سے جمعہ  ادا کیا جاتا  ہے  اب اس میں    جمعہ موقوف کیا جائے،   یا جاری رکھا جائے،  نیز اگر جمعہ بند کرنے سے  فتنہ کا خوف ہو  تو پھر کیا حکم ہے؟

اگراب  شرعا حکم  نماز جمعہ بند کرنے کا ہو   تو  گزشتہ دس سال کی نمازوں  کا کیا حکم ہے؟

جواب

سوال میں  مسئولہ علاقہ  کلانچ  کی جو  تفصیل  بیان کی گئی ہے اس کی رو سے   وہ  قریہ صغیرہ (چھوٹی بستی) ہے اور  قریہ صغیرہ میں جمعہ پڑھنا جائز نہیں ہے لہٰذا مذکورہ گاؤں میں جمعہ ادا کرنا درست نہیں۔  اگر  موجودہ حالات میں  جمعہ کی نماز موقوف کرنے سے   فتنہ کا خوف نہیں تو جمعہ کی نماز بند کردیں، اگر جمعہ کی نماز بند کرنے سے فتنہ ، فساد کا خوف ہو تو جمعہ کی نماز کو جاری رکھا جائےمگر لوگوں کو حکمت اور مصلحت کے ساتھ نماز جمعہ کے ادا کرنے سے منع بھی کیا جائے۔جب فتنہ کا خوف ختم ہوجائے تو جمعہ بند کردیا جائے، اور گزشتہ  زمانہ میں جمعہ کی جو نمازیں ادا کی گئی ہیں ان کا اعادہ لازم نہیں ہے۔

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

"عن علي قال: لاجمعة، و لاتشریق، و لاصلاۃ فطر، و لاأضحی، إلا في مصر جامع، أو مدینة عظیمة."

( کتاب الصلاۃ،  مؤسسۃ علوم القرآن بیروت۴/۴۶، رقم:۵۰۹۹

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100254

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں