بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بستی کی کئی مساجد میں جمعہ کا قیام


سوال

ہمارے  یہاں تین محلے ہیں اور ہر ایک میں ایک مسجد بھی ہے، جس میں سے دو میں جمعہ کی نماز ہورہی ہے اور ایک میں ابھی نہیں ہورہی ہے ۔ اب اس محلہ کےلوگ اس میں جمعہ قائم کرنا چاہتے ہیں ان کا کہناہے کہ یہاں جمعہ نہ ہونے کی وجہ سے بہت سےلوگ جمعہ سے بھی محروم رہ جاتے ہیں اور یہاں بہت جہالت بھی ہے جس کی وجہ لوگ مسجد پربھی دھیان نہیں دیتےہیں جس کو دور کرنے کا ایک واحد یہی راستہ ہے؛  کیوں کہ اور وقت میں ان سے ملاقات نہیں ہوپاتی ہے ۔تو  کیا وہاں جمعہ قائم کرسکتے ہیں ؟

جواب

 فقہاء  کی تحریرات سے معلوم ہوتا ہے کہ   جمعہ کے لیے بڑا شہر یا ایسی بستی ہونی چاہیے کہ جس میں انسانی ضروری حاجات میسر ہوں، ان ضروریات کی موجودگی میں ایسی بستی کو شہر قصبہ یا بڑا گاؤں کہا جائے گا،  وہاں گلی کوچے ہوں، محلے ہوں، ضروریات ہمیشہ ملتی ہوں، ڈاکٹر کے کلینک ہوں، ڈاک خانہ  اور پنچایت کا نظام ہو، ضروری پیشہ ور موجود ہوں، آس پاس دیہات والے اپنی ضروریات وہاں سے پوری کرتے ہوں، اور آبادی اگر تقریباً تین ہزار ہو تو اس میں جمعہ جائز ہے۔

اب اگر آپ شہر کے رہائشی ہیں اور وہاں مختلف محلے ہیں یا کسی ایسی بڑی بستی میں رہائش پذیر ہیں جہاں مذکورہ بالا شرائط کے مطابق سہولیات میسر ہیں اور وہاں مختلف محلے میں مساجد موجود ہیں تو  ایسی صورت میں   شہر  میں یا بڑی بستی میں ایک جگہ کے بجائے متعد د مقامات پر جمعہ کی نماز ادا کرنا جائز ہے، خواہ وہ مساجد ایک دوسرے سے قریب ہوں۔اس لیے جن محلوں کا آپ نے ذکر کیاہے اگر وہاں دو مساجد میں نماز جمعہ ادا کی جاتی ہے اور تیسری مسجد میں نما زجمعہ شروع کرنا چاہتے ہیں تو مذکورہ بالا شرائط کے پائے جانے کی صورت میں وہاں جمعہ قائم کرنا جائز ہوگا۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109201608

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں