بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بستی میں کتنے قبرستان ہونے چاہییں؟


سوال

 ایک بستی میں کتنے قبرستان ہونا بہتر ہے ؟ایک عالم صاحب کا کہنا ہے کہ ایک ہی ہونا بہتر ہے کیونکہ مدینہ منورہ میں آج تک ایک ہی ہے کیا مذکورہ عالم صاحب کی بات درست ہے؟ نیز اگر قبرستان متعدد ہوں تو کیا ان کی تقسیم برادری کے نام پر درست ہے مثلاً ترکوں کا قبرستان ۔قبرستان انصاریان ۔ چودھری قبرستان ۔کیا اس طرح نام رکھنا درست ہے؟ اور ایک برادری کے قبرستان میں دوسری برادری کے مردے کو دفن کرنا عملاً معیوب سمجھا جاتا ہے کیا یہ معیوب سمجھنا درست ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ ایک بستی میں لوگوں کے تناسب کے اعتبار سے   قبرستان ہونا چاہے۔

خاص قبرستان جو کسی برادری کی ملکیت میں ہو ، ایسےقبرستان کو  برادری  کے نام پر رکھا جاسکتا ہے لیکن اس سے میت کو اجر و ثواب نہیں ملے گا۔

جو قبرستان عام مسلمانوں کے لیے وقف ہے،خواہ وہ محلہ کی مسجد کے ساتھ ہو یا علیحدہ ہو، اس میں تمام مسلمانوں کو میت دفن کرنے کا حق حاصل ہے۔قبرستان کے متولی کے لیے کسی کو اس میں میت کو دفن کرنے سے روکنے کا اختیار نہیں ہے۔

اگر قبرستان عام مسلمانوں کے لےوقف نہ ہو،کسی خاص جماعت یا خاندان یاکسی خاص محلّہ کے لیے وقف ہو تو ان لوگوں کو ہی اس قبرستان میں دفن ہونے کا حق حاصل ہے ، دوسرے لوگوں اس میں مردہ دفن کرنے کا حق حاصل نہیں ہے،البتہ قبرستان کی انتظامیہ ان کوگوں کے علاوہ دوسرے لوگوں کو اس میں میت دفن کرنے کی اجازت دے سکتی ہے۔ لیکن اس صورت میں زمین کی قیمت لینا جائز نہیں ہوگا۔ کیونکہ قبرستان وقف ہے۔

عنایہ میں  ہے:

"‌ومن ‌بنى ‌سقاية ‌للمسلمين أو خانا يسكنه بنو السبيل أو رباطا أو جعل أرضه مقبرة لم يزل ملكه عن ذلك حتى يحكم به الحاكم عند أبي حنيفة) ؛ لأنه لم ينقطع عن حق العبد؛ ألا ترى أن له أن ينتفع به فيسكن في الخان وينزل في الرباط ويشرب من السقاية، ويدفن في المقبرة فيشترط حكم الحاكم أو الإضافة إلى ما بعد الموت كما في الوقف على الفقراء."

(العنایه شرح الھدایه238/6،ط:دارالفکرـ لبنان)

مرقاۃالمفاتیح میں ہے:

"و فی الأزهار: يستحب أن يجعل على القبر علامة يعرف بها، لقوله صلى الله عليه وسلم «أعلم بها قبر أخي»"

(مرقاۃ الممفاتیح 1256/4،ط؛ دارالفکرـ بیروت)

فتاویٰ ہندیہ  میں ہے:

"ومن حفر قبرا لنفسه فلا بأس به ويؤجر عليه، كذا في التتارخانية رجل حفر قبرا فأرادوا دفن ميت آخر فيه إن كانت المقبرة واسعة يكره وإن كانت ضيقة جاز ولكن يضمن ما أنفق صاحبه فيه، كذا في المضمرات"

(الفتاویٰ الھندیه 166/1،ط؛ دارالفکر بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508101901

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں