بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بڑے گاؤں کے اجڑ جانے کے بعد اس میں نمازِجمعہ کا حکم


سوال

 ایک بڑا گاؤں جس کی آبادی ڈھائی تین ہزار تک تھی ،جس میں ضرورت کی اشیاء میسر ہونے کی وجہ سے کا فی عرصےسے  وہاں جمعہ وعیدین کی نمازیں ہوتی تھیں،مگر چند سال پہلے وہاں کے حالات بہت زیادہ خراب ہوئے ،جس کی وجہ سے اکثر و بیشر لوگوں نے وہاں سے نقل مکانی کرلی اور وہاں صرف آٹھ دس گھرانے رہ گئے اوراب وہاں نہ ضرورت کی اشیاء ملتی ہیں اور نہ دوسری سہولیات میسر ہیں،آج کل وہاں صرف ایک دکان ہے ،اس کے علاوہ تھانہ،ڈاکخانہ ،ہسپتال وغیرہ کچھ نہیں ہے اور اسی طرح اہلِ پیشہ میں سے بھی کوئی  نہیں ہے،اب کچھ لوگ کہتے ہیں کہ چوں کہ پہلے جمعہ ہوتا تھالہذا اب بھی جمعہ و عیدین قائم ہونا چاہیے ،حالاں کہ چند سال درمیان میں جمعہ وعیدین کی نمازیں نہیں ہوئیں،اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ چوں کہ اتنی آبادی بھی  نہیں  اور نہ ضرورت کی اشیاء مل رہی ہیں،لہذا جمعہ و عیدین درست نہیں،اس علاقے کا نام "دشت زریں بگ " ہے ،عرض یہ ہے کہ آیا اس علاقے کے لوگ جمعہ و عیدین پڑھیں یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ جمعہ کے صحیح ہونے کی شرائط میں سے ایک شرط شہریا اس کے مضافات کا ہونا ہے،اور قریہ کبیرہ یعنی بڑا گاؤں بھی شہر کے حکم میں داخل ہے، لہذا  بڑے گاؤں میں بھی جمعہ ادا کرنا نہ صرف درست ہے بلکہ واجب ہے  ،بڑا گاوں اس بستی کو کہا جاتا ہے جو لوگوں کے عرف میں بڑی بستی کہلاتی ہو، چنانچہ جس بستی کی مجموعی آبادی ڈھائی  تین ہزار افراد پر مشتمل ہو اور وہاں ضروریات زندگی میسر ہوں وہ عرف میں قریہ کبیرہ یعنی بڑی بستی کہلاتی ہے، اور جس بستی کی آبادی اس سےکم ہو اور وہاں ضروریاتِ زندگی بھی میسر نہ ہوں تو وہ قریہ صغیرہ کہلاتی ہے جس میں جمعہ و عیدین  کی نماز قائم کرنا جائز نہیں ،بلکہ جمعہ کے دن باجماعت ظہر کی نماز ادا کرنے کا حکم ہے۔ 

مذکورہ تفصیل کی رو سے  صورتِ مسئولہ میں جب موضع دشت زریں بگ کی آبادی فی الحال آٹھ دس گھرانوں پر مشتمل ہے اور وہاں بازار وغیرہ بھی نہیں ہے نہ ضرورت کی اشیاء وہاں ملتی ہیں،تو یہ جگہ یقیناً قریہ صغیرہ ہے ،لہذا مذکورہ مقام پر  فی الوقت جمعہ وعیدین  کی نماز قائم کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ  جمعہ کے دن باجماعت ظہر کی نماز ادا کی جائے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وفيما ذكرنا إشارة إلى أنه لا تجوز في الصغيرة التي ليس فيها قاض ومنبر وخطيب كما في المضمرات والظاهر أنه أريد به الكراهة لكراهة النفل بالجماعة؛ ألا ترى أن في الجواهر لو صلوا في القرى لزمهم أداء الظهر."

(كتاب الصلاة،باب الجمعة،138/2،ط:سعيد)

وفيه أيضا:

"وفي القنية: صلاة العيد في القرى تكره تحريما أي لأنه اشتغال بما لا يصح لأن المصر شرط الصحة.

(قوله: صلاة العيد) ومثله الجمعة ح (قوله بما لا يصح) أي على أنه عيد، وإلا فهو نفل مكروه لأدائه بالجماعة."

(كتاب الصلاة،باب العيدين،167/2،ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144311100836

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں