بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بڑے بھائی کا میراث کی تمام جائیداد کو فروخت کرنے کا حکم


سوال

ایک شخص کا انتقال ہوا، ورثاء میں بیوہ، دو لڑکے اور چھ لڑکیاں تھیں، ان کے انتقال کے بعد بڑے بیٹے اور بیوہ نے میراث میں موجود تمام جائیداد اس شرط پر فروخت کردی کہ وہ اپنے چھوٹے بھائی اور بہنوں کے تمام اخراجات چلائے گا، مرحوم کے بڑے بیٹے نے اپنی اس شرط پر عمل بھی کیا، تمام بہن ، بھائی کے اخراجات اٹھائے، ان کی شادیاں کروائیں، اب میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا ان کا یہ کام ازروئے شرع جائز تھا یا نہیں؟ یہ بھی معلوم کرنا ہے کہ اس صورت میں دوسرے بھائی اور بہنوں کو میراث میں سے اپنے حصہ کے مطالبہ کرنے کا اختیار حاصل ہے یا نہیں؛ کیوں کہ بڑے بھائی نے اپنے بھائی اور بہنوں  کےلیے بہت پیسے خرچ کیے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ ترکہ جب تک تقسیم نہ ہوجائے اس وقت تک تمام ورثاء اس میں مشترک ہوتے ہیں، کسی وارث کے لیے دیگر ورثاء کی اجازت کے بغیر ترکہ میں تصرف کرنے کا اختیار نہیں ہوتا، اور اگر کوئی وارث ترکہ کو بغیر اجازت کے بیچ دیتا ہے تو وہ اس کا ضامن ہوگا۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر مرحوم  کے تمام ورثاء یعنی اس کی بیوہ اور اولاد میں سے ہر ایک عاقل بالغ تھا اور یہ تمام حضرات اس بات پر راضی تھے کہ ترکہ کی جائیداد کو اس شرط پر فروخت کر دیا جائے کہ اس سے حاصل ہونے والی رقم سے بڑا بیٹا اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے اخراجات چلائے تو اس کے لیے ایسا کرنا درست تھا اور اب دیکھا جائے گا کہ جائیداد فروخت کرنے کے بعد حاصل شدہ رقم سے بڑے بھائی نے اپنے چھوٹے بہن بھائیوں پر جو اخراجات کیے ہیں تو اگر وہ رقم ختم ہوچکی ہے تو ایسی صورت میں بہن بھائیوں کو میراث کے حصے کا مطالبہ کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے، اور اگر حاصل شدہ رقم میں سے اخراجات کرنے کے باوجود کچھ رقم بچ گئی ہے تو پھر بہن بھائی اس رقم کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔

اور اگر بہن بھائیوں میں سے کوئی اس بات پر راضی نہیں تھا کہ ترکہ کی جائیداد کو فروخت کرکے ان پر اخراجات کیے جائیں اور اس پر کچھ خرچ بھی نہ کیا گیا ہو  تو وہ اپنے حصہ کے مطالبے میں برحق ہیں۔

البتہ اگر مرحوم  کی اولاد میں نابالغ بھی تھے ، تو شرعا نابالغ کے پاس اگر مال ہوتواس کا خرچہ اور نفقہ اسی کے مال میں  سے ادا کیا جاتا ہے،اس لیے تو باپ کی عدم موجودگی میں بڑے بیٹےکا اپنے چھوٹے بہن بھائیوں پر کیا ہوا  خرچہ ان کی بلوغت تک اور لڑکیوں کی شادی ہونے تک فروخت شدہ  مکان کی رقم میں سے منہا ہوگا،اس کے بعد کا خرچہ بڑے بیٹے کی طرف سے  بطورِ احسان شمار ہوگا، بڑے بھائی کا اس خرچے کے لیے میراث کی تمام جائیداد کو بیچنا درست نہیں تھا، لہٰذا اب اگر دیگر ورثاء اپنی میراث کے حق کا مطالبہ کررہے ہیں تو وہ اس مطالبے میں برحق  ہیں،لیکن بڑا بھائی چوں کہ میراث کی جائیداد کو بیچ چکا ہے ،لہٰذا مذکورہ اخراجات کے بعد اگر ترکہ کی رقم باقی ہے تو وہ تمام ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگی الغرض اس بارے میں باہمی رضامندی سے معاملہ کرنا چاہیے۔

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"وشركة الملك نوعان: شركة جبر، وشركة اختيار فشركة الجبر أن يختلط المالان لرجلين بغير اختيار المالكين خلطا لا يمكن التمييز بينهما حقيقة بأن كان الجنس واحدا أو يمكن التمييز بضرب كلفة ومشقة نحو أن تختلط الحنطة بالشعير أو يرثا مالا."

(كتاب الشركة، الباب الأول في بيان أنواع الشركة وأركانها وشرائطها وأحكامها، ج: 2، ص: 301، ط: دار الفكر بيروت)

درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"(المادة 96) :‌لا ‌يجوز ‌لأحد أن يتصرف في ملك الغير بلا إذنه هذه المادة مأخوذة من المسألة الفقهية (‌لا ‌يجوز ‌لأحد التصرف في مال غيره بلا إذنه ولا ولايته) الواردة في الدر المختار...

كذلك ليس لأحد الشركاء أن يركب الحيوان المشترك أو أن يحمله متاعا بدون إذن الشريك الآخر فإذا ركبه أو حمله وتلف يكون ضامنا حصة الشريك."

(المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية، ج: 1، ص: 96، ط: دار الجيل)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144406100472

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں