بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بروقت مزدوری نہ دینے کا حکم


سوال

اگر کوئی شخص یا کوئی کمپنی اپنے ٹھیکیداروں کا پیسہ ٹھیکیداروں کوبروقت  دینے کے بجائے ان ٹھیکیداروں کے پیسے کو اپنے ذاتی استعمال میں لگاۓ، مثلا: پراپرٹی خرید لے ،گولڈ خرید لے یا اپنی کمپنی میں لگاۓ اور اس طریقے سے پیسہ بنائے، ایک  سال تک پیسہ واپس نا کرے، رلا رلا کر پیسہ واپس کرے،نیز اس پیسے سے جو پرافٹ حاصل ہو وہ سارا پرافٹ خود کھا جائے۔

  سوال یہ ہے کہ:  کیا مذکورہ شخص یا کمپنی کا  یہ عمل درست ہے؟اس عمل سے ٹھیکیداروں کے پیسے کی ویلیو گر جاتی ہے اور ٹھیکید ار اس پیسے کو اپنے استعمال میں  بروقت نہیں لا سکتا، کیا ایسا عمل کسی شخص یا کمپنی کے لیے  جائز ہے؟  اس عمل کا گناہ کتنا بڑا ہے؟    کیا یہ عمل سود کھانے سے بڑا گناہ نہیں ہے۔ 

جواب

واضح رہے کہ   کوئی کمپنی  یا کوئی شخص کسی   ٹھیکیدار سے کوئی کام لے اور ٹھیکیدار وہ کام  مطلوبہ طریقے پر  مکمل کرلے تو مزدوری کا مستحق بن جاتا  ہے،چناں چہ  کوئی کمپنی یا شخص   ٹھیکیدار کو  کام مکمل کرنے کے بعد اگر بر وقت  ادائیگی نہیں کرے گی،تو حقوق العباد میں کمی کوتاہی اور ظلم کی مرتکب ہوگی۔ 

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:  " اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: تین آدمی ایسے ہیں  کہ قیامت کے دن میں خود ان سے جھگڑوں گا،  ایک وہ شخص  ہے جس نے میرے نام کی قسم کھائی پھر وہ قسم توڑ ڈالی،  دوسرا وہ آدمی ہے جس نے کسی آزادکو پکڑ کر فروخت کردیا پھر اس کی قیمت کھا گیا، تیسرا وہ آدمی جس کو کسی نے مزدوری پر لگایا اور اس سے پورا کام لیا مگر اس کو مزدوری نہ دی۔"

ایک اور موقع پر فرمایا:حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ   روایت کرتے ہیں کہ  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " مزدور کو اس کی اجرت اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے دے دو۔(یعنی جب مزدور اپنا کام پورا کر چکے تو اس کی مزدوری فوراً دے دو، اس میں تاخیر نہ کرو)

ایک موقع پر فرمایا کہ: ”مال دار آدمی کا قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔"

لہذا صورتِ مسئولہ میں  کوئی کمپنی یا  شخص کا بلاوجہ ٹھیکیداروں کو مزدوری تاخیر سے ادا کرنا اور  اس رقم کو اپنے ذاتی استعمال میں لا کر نفع حاصل  کرنے کی صورت  میں مذکورہ کمپنی یا شخص کے لیے نفع حلال  ہوگا، کیوں کہ جب تک  ٹھیکیدار کو رقم ادا نہیں کی جاتی وہ رقم بدستور کمپنی یا شخص کی ملکیت ہےاور اپنی مملوکہ چیز سے نفع حاصل کرنا جائز ہے،البتہ مزدوری تاخیر سے ادا کرنے کے سبب وہ کمپنی کی انتظامیہ  یا شخص گناہ گار ہوگا، یہ گناہ  صرف توبہ کرنے سے معاف نہ ہوگا، بلکہ صاحب حق جب تک معاف نہ کرے تب تک  ایسا گناہ معاف نہیں ہوتا۔

قرآن کریم میں ہے:

"وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا وَإِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا وَكَفَى بِنَا حَاسِبِينَ."(سورہ انبیاء آیت 47)

ترجمہ:"اور (ہاں) قیامت کے روز ہم میزان عدل قائم کریں گے(اور سب اعمال کا وزن کریں گے) کسی پر اصلا ظلم نہ ہوگا، اور اگر( کسی کا) عمل راۓ کے دانے کے برابر بھی ہوگا تو ہم اس کو  (وہاں) حاضر کردیں گے اور ہم حساب لینے والے کافی ہیں۔"

حدیث شریف میں ہے:

" قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " قال الله تعالى: ثلاثة أنا خصمهم يوم القيامة: رجل أعطى بي ثم غدر ورجل باع حرا فأكل ثمنه ورجل استأجر أجيرا فاستوفى منه ولم يعطه أجره ،رواه البخاري". 

(مشكاة المصابيح،كتاب البيوع،باب الإجارة،الفصل الأول،2/ 899،ط: المكتب الإسلامي،بيروت)

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أعطوا الأجير أجره قبل أن يجف عرقه» . رواه ابن ماجه."

(مشكاة المصابيح،كتاب البيوع،باب الإجارة،الفصل الأول،900/2،ط: المكتب الإسلامي،بيروت)

"عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " مطل الغني ظلم، وإذا احلت على مليء، فاتبعه، ولا تبع بيعتين في بيعة".

(ترمذي،أبواب البيوع،‌‌باب ما جاء في مطل الغني أنه ظلم،578/2،ط:دار الغرب الإسلامي-بيروت)

"عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ‌إذا ‌خلص ‌المؤمنون ‌من ‌النار ‌حبسوا ‌بقنطرة ‌بين ‌الجنة ‌والنار، فيتقاصون مظالم كانت بينهمفي الدنيا حتى إذا نقوا وهذبوا، أذن لهم بدخول الجنة، فوالذي نفس محمد صلى الله عليه وسلم بيده، لأحدهم بمسكنه في الجنة أدل بمنزله كان في الدنيا."

(بخاري،كتاب المظالم،باب قصاص المظالم،861/2،دار ابن كثير، دار اليمامة)

ترجمہ:"حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جب مومنوں کو دوزخ سے نجات مل جائے گی تو انہیں ایک پل پر جو جنت اور دوزخ کے درمیان ہو گا روک لیا جائے گا اور وہیں ان کے مظالم کا بدلہ دے دیا جائے گا۔ جو وہ دنیا میں باہم کرتے تھے۔ پھر جب پاک صاف ہو جائیں گے تو انہیں جنت میں داخلہ کی اجازت دی جائے گی۔ اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں محمد ﷑کی جان ہے، ان میں سے ہر شخص اپنے جنت کے گھر کو اپنے دنیا کے گھر سے بھی بہتر طور پر پہچانے گا۔  "

فتاوی شامی میں ہے:

"لأن الملك من شانه أن یتصرف فيه بوصف الاختصاص".

(کتاب البیوع 504/4 ط:سعید)

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

 "حقوق الآدميين وهي لا تسقط بالتوبة، ولا فرق بين المقتول والمسروق منه، والمغصوب منه والمقذوف وسائر حقوق الآدميين، فإن الإجماع منعقدٌ على أنها لا تسقط بالتوبة، ولا بد من أدائها إليهم في صحة التوبة، فإن تعذر ذلك فلا بد من الطلابة يوم القيامة."

(سورة النساء،آيت:92،ص:381،ج2،ط:دار طيبة للنشر والتوزيع)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409101586

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں