بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

برطانوی شہریت حاصل کرنے کے حلف لینے کا حکم


سوال

1: کیا برطانوی شہریت کے حصول کے لیے حلف اٹھانا جائز ہے، حلف نامہ مع اردو ترجمہ مندرجہ ذیل ہے :

Oath of allegiance I, (name), swear by Almighty God that, on becoming a British citizen, I will be faithful and bear true allegiance to His Majesty King Charles III, His Heirs and Successors, according to law. Affirmation of allegiance I (name) do solemnly, sincerely and truly declare and affirm that on becoming a British Citizen, I will be faithful and bear true allegiance to His Majesty King Charles III, his Heirs and Successors, according to law Pledge I will give my loyalty to the United Kingdom and respect its rights and freedoms. I will uphold its democratic values. I will observe its laws faithfully and fulfil my duties and obligations as a British citizen.

ترجمہ: وفاداری کا حلف:  میں، (نام)، اللہ تعالیٰ کی قسم کھاتا ہوں کہ، برطانوی شہری بننے پر، میں وفادار رہوں گا اور قانون کے مطابق، شہنشاہ چارلس III، ان کے وارثوں اور جانشینوں سے سچی وفاداری کروں گا۔ بیعت کا اثبات میں (نام) سنجیدگی سے، خلوص اور سچے دل سے اعلان کرتا ہوں اور تصدیق کرتا ہوں کہ برطانوی شہری بننے پر، میں وفادار رہوں گا اور قانون کے مطابق، بادشاہ چارلس III، ان کے وارثوں اور جانشینوں کے ساتھ سچی وفاداری کروں گا۔ عہد میں برطانیہ کے ساتھ اپنی وفاداری پیش کروں گا اور اس کے حقوق اور آزادیوں کا احترام کروں گا۔ میں اس کی جمہوری اقدار کو برقرار رکھوں گا۔ میں اس کے قوانین کی وفاداری کے ساتھ عمل کروں گا اور ایک برطانوی شہری کی حیثیت سے اپنے فرائض اور ذمہ داریاں پوری کروں گا۔

2: اور اگر یہ حلف اٹھا کر توڑا جائے تو اس کا کفارہ کیا ہو گا۔

جواب

اگر قانون اسلام کے خلاف نہیں، اور بادشاہ کی وفاداری میں شریعت کے خلاف کوئی کام نہیں پھر برطانیہ کا شہری بننے کے لیے اس طرح حلف اٹھانا جائز ہوگا ورنہ نہیں ، اور دونوں صورتوں میں اگر حلف اٹھالیا تو خلاف ورزی کرنے کی صورت میں قسم توڑنے کا کفارہ لازم آئے گا اور اگر شریعت کے خلاف حلف اٹھایا ہے تو قسم توڑنا لازم ہوگا۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

" إنما سمي القسم يمينا لوجهين: أحدهما أن اليمين هي القوة والحالف يتقوى بالقسم على الحمل أو المنع. والثاني أنهم كانوا يتماسكون بأيديهم عند القسم فسميت بذلك ...

(قوله: وعلى آت منعقدة وفيها كفارة فقط) أي حلفه على آت تسمى منعقدة نفيا كان أو إثباتا وحكمها وجوب الكفارة إذا حنث لقوله تعالى {ولكن يؤاخذكم بما عقدتم الأيمان فكفارته} [المائدة: 89] الآية والمراد منها اليمين في المستقبل بدليل قوله تعالى {واحفظوا أيمانكم} [المائدة: 89] ولا يتصور الحفظ عن الحنث والهتك إلا في المستقبل وقد اعترض في التبيين على المصنف بأنه لا معنى لقوله فقط لأن في اليمين المنعقدة إثما أيضا، ولفظ الكفارة ينبئ عنه؛ لأن معناها الستارة وهي لا تجب إلا لرفع المأثم اهـ".

(کتاب الایمان، ج:4، ص:300، ط:دارالکتاب الاسلامی)

فتاوی شامی میں ہے:

"ومن حلف علی معصیة كعدم الکلام مع أبویه أو قتل فلان الیوم وجب الحنث والتکفیر ".

(کتاب الایمان ، ج:3، ص:728، ط:ایچ ایم سعید)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144409100711

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں