بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

برقی آلہ کے ذریعہ مچھر مارنے کے جائز ہونے کی وجہ


سوال

برقی آلہ سےبھی مچھرآگ میں جلنے کی طرح جلتاہی توہے؟

جواب

مچھر  وغیرہ مارنے کا مذکورہ برقی آلہ جو مساجد دفاتر وغیرہ جگہوں پر استعمال ہوتا ہے اس آلےمیں بجلی ہوتی ہے، آگ نہیں ہوتی، اس آلہ کے ذریعہ سے مچھر کرنٹ لگنے کی وجہ سے مرجاتے ہیں، جلتے نہیں ہیں؛ اس لیے  ایسے  آلے کے استعمال کی اجازت ہے۔

جہاں تک موذی چیزوں کو آگ میں جلانے کی ممانعت کا تعلق ہے، اس میں اہلِ علم نے تفصیل ذکر کی ہے، جس کے بیان کا یہ موقع نہیں ہے۔

العرف الشذي شرح سنن الترمذي (3/ 145):

"وأما مسألة الإحراق، فمأخذ من قال بعدم الجواز رواية أبي هريرة قال: بعثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: «إن وجدتم فلاناً وفلاناً ـ لرجلين من قريش ـ فأحرقوهما بالنار»، ثم قال: إلخ، وأصل الواقعة أنه لما خلص أبا العاص وأخذ منه الوعد بأنه يرسل زينب إلى المدينة فأرسل صلى الله عليه وسلم زيد بن حارثة لقتل جبار بن أسود كان آذى زينب، فأرسل النبي صلى الله عليه وسلم أصحابه في أثره؛ ليحرقوه، ثم منع عن الإحراق، وزعم بعض أنه اطلع على الخطأ في حكم الإحراق، أقول: لا داعي إلى هذا، بل هذا إمهال في دار الدنيا ومسامحة؛ ليؤخذ في الآخرة أشدّ الأخذ، ولايدلّ على منع الإحراق، وثبت الإحراق عن الصحابة أيضاً، وفي الدر المختار ص (334): جواز إحراق اللوطي، وروي عن أحمد بن حنبل جواز إحراق الحيوانات المؤذية من القمل والزنابير وغيرها، وبه أخذ عنه عدم البد منه". فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144108201352

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں