آج کل لوگ علماء اور حفاظ کو اپنے گھر لے جاتے ہیں، اور ان سے قرآن شریف کا ختم کرواتے ہیں، ختم میت کے لیے نہیں بلکہ کسی پر کو ئی مصیبت آجائے یا برکت کے لیے ، پھر اُ ن کو کھانا کھلاتے ہیں، اور بعض لوگ پیسے بھی دیتے ہیں ۔
پو چھنا یہ ہے کہ اس طرح ختم کرنا جائز ہے یا ناجائز ہے؟ اس طرح کھانا کھلانا اور پیسے دینےکا کیا حکم ہے؟
میت کے ایصالِ ثواب کی غرض جو مروجہ ختم کرایا جاتا ہے، اس میں ختم کرنے والوں کو بطور اجرت کھانا کھلانا، یا انہیں پیسے دینا جائز جائز نہیں، البتہ باقی کسی مقصد کے لیے مثلا حصول برکت کے لیے یا کسی مقصد کامیابی کے لیے ختم کرایا جائے، تو اس کے بعد کھانا کھلانا، ختم کرنے والوں کو رقم دینا درست ہے، تاہم کھانا کھلانے اور رقم دینے کو لازمی نہیں سمجھنا چاہیے، پس اگر کوئی خوشی سے کھلادے، یا رقم دے دے، تو اجازت ہوگی۔
فتاوی محمودیہ میں ہے:
ایصال ثواب وغیرہ کے ختم قرآن پر شیرینی
"الاستفتاء ٨١٤ : یہاں کا رواج ہے لوگ علماء، حفاظ اور کچھ علوم دین جاننے والے لوگوں سے ختم قرآن، ختم خواجگان یا اس کے علاوہ اور کسی قسم کا ختم کراتے ہیں اور ایصال ثواب یا اپنے مقاصد کی دعائیں کراتے ہیں، پڑھنے والوں کو کھانا بھی کھلاتے ہیں اور کچھ روپے پیسے بھی دیتے ہیں، یہ رواج شرعا کیسا ہے؟
روپے پیسے لینا دینا کیسا ہے؟
اہل استطاعت اس قسم کے پیسے لے سکتے ہیں یا نہیں؟
نیز کھانا کھا سکتے ہیں یا نہیں؟
الجواب حامداً و مصلياً:
ایصال ثواب کے لئے قرآن پاک ختم کرا کے بطور معاوضہ کھانا کھلانا درست نہیں، اس سے ثواب نہیں ہوتا بلکہ گناہ ہوتا ہے، علامہ شامی نے اس کی تصریح کی ہے۔
اہل استطاعت اور فقراء کسی کو بھی ایسا کھانا کھلانا اور پیسے لینا درست نہیں، مگر دیگر مقاصد مثلا مقدمات کی کامیابی کے لیے اگر ختم کرایا جائے اور کھانا کھلایا جائے یا پیسے دیئے جائیں تو یہ درست ہے، یہاں ختم سے مقصود تحصیل ثواب نہیں بلکہ دوسرا کام مقصود ہے۔ واللہ سبحانہ تعالی اعلم"
(باب البدعات والرسوم، ٣ / ٨٥، ط: فاروقیہ)
رد المحتار علي الدر المختار میں ہے:
"ونقل العلامة الخلوتي في حاشية المنتهى الحنبلي عن شيخ الإسلام تقي الدين ما نصه: ولا يصح الاستئجار على القراءة وإهدائها إلى الميت؛ لأنه لم ينقل عن أحد من الأئمة الإذن في ذلك. وقد قال العلماء: إن القارئ إذا قرأ لأجل المال فلا ثواب له فأي شيء يهديه إلى الميت، وإنما يصل إلى الميت العمل الصالح، والاستئجار على مجرد التلاوة لم يقل به أحد من الأئمة، ... وما استدل به بعض المحشين على الجواز بحديث البخاري في اللديغ فهو خطأ؛ لأن المتقدمين المانعين الاستئجار مطلقا جوزوا الرقية بالأجرة ولو بالقرآن كما ذكره الطحاوي؛ لأنها ليست عبادة محضة بل من التداوي."
(باب الإجارة الفاسدة، مطلب في الاستئجار على المعاصي، ٦ / ٥٧، ط: دار الفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602102782
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن