بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بارش میں گیلے کپڑوں کے ساتھ مسجد میں نماز ادا کرنا


سوال

ایک شخص کے بارش کی وجہ سے کپڑے گیلے ہوگئے۔ اب وہ مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنے جائے تو اُسے کہاں کھڑا ہونا چاہیے؟ آج کل تو کرونا وائرس کی وجہ سے مسجدوں سے قالین وغیرہ ہٹائے گئے ہیں تو اگر وہ ایسی صورت میں دیگر نمازیوں کے ساتھ صف میں کھڑا ہوجائے تو تمام جگہ گیلی ہوجاتی ہے، اور اگر قالین پر ایسا شخص کھڑا ہوجائے تو قالین بھی خوب گیلا ہوجائے گا۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ ایسے شخص کو کہاں کھڑا ہونا چاہیے؟ کیا وہ مسجد کے صحن میں کھڑا ہو جہاں جگہ ویسے ہی گیلی ہے؟ اس شخص کا وہاں کھڑا ہونا بہتر ہے یا وہ علیحدہ کھڑا ہو؟ جب کہ اتصالِ صفوف برقرار نہ رکھنے پر کراہت کا بھی اندیشہ ہو!

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ شخص کے کپڑے ناپاک نہ ہوں، صرف بارش کے پانی کی  وجہ سے گیلے ہوں تو اس کو چاہیے کہ مسجد کے وضو خانہ یا بیت الخلا وغیرہ میں کپڑوں کو اچھی طرح نچوڑ کر حتی الامکان خشک کرلے؛ تاکہ پانی ٹپکنا بند ہوجائے، اس کے بعد وہ صف کے کنارے پر کھڑا ہوکر  عام لوگوں  کے ساتھ ہی نماز ادا کرلے،  مسجد کے صحن میں اکیلا کھڑا نہ ہو،  اس لیے جب اس کے کپڑوں سے پانی ٹپک نہ رہا ہو گا تو اس کے صف کے ایک طرف کھڑا ہونے سے نمازیوں کو تکلیف نہیں ہوگی اور پانی پاک ہونے کی وجہ سے مسجد کی تلویث بھی نہیں ہوگی، بلکہ صرف پانی ہوگا جو بعد میں خشک ہوجائے گا۔ لیکن اگر اس کے کپڑوں سے اس قدر پانی ٹپک رہا ہو جس سے دیگر نمازیوں کو تکلیف ہورہی ہو کپڑے تبدیل کرکے آنا بھی مشکل ہو تو پھر گھر میں نماز پڑھ لینے سے وہ گناہ گار نہیں ہوگا۔ 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1 / 661):

وأكل، ونوم إلا لمعتكف وغريب، وأكل نحو ثوم، ويمنع منه 

(قوله: وأكل نحو ثوم) أي كبصل ونحوه مما له رائحة كريهة للحديث الصحيح في النهي عن قربان آكل الثوم والبصل المسجد. قال الإمام العيني في شرحه على صحيح البخاري قلت: علة النهي أذى الملائكة وأذى المسلمين ولا يختص بمسجده  عليه الصلاة والسلام ، بل الكل سواء لرواية مساجدنا بالجمع، خلافا لمن شذ ويلحق بما نص عليه في الحديث كل ما له رائحة كريهة مأكولا أو غيره، وإنما خص الثوم هنا بالذكر وفي غيره أيضا بالبصل والكراث لكثرة أكلهم لها، وكذلك ألحق بعضهم بذلك من بفيه بخر أو به جرح له رائحة، وكذلك القصاب، والسماك، والمجذوم والأبرص أولى بالإلحاق. وقال سحنون لا أرى الجمعة عليهما. واحتج بالحديث وألحق بالحديث كل من آذى الناس بلسانه، وبه أفتى ابن عمر وهو أصل في نفي كل من يتأذى به. ولا يبعد أن يعذر المعذور بأكل ما له ريح كريهة، لما في صحيح ابن حبان عن «المغيرة بن شعبة قال انتهيت إلى رسول الله  صلى الله عليه وسلم  فوجد مني ريح الثوم فقال: من أكل الثوم، فأخذت يده فأدخلتها فوجد صدري معصوبا، فقال: إن لك عذرا» وفي رواية الطبراني في الأوسط «اشتكيت صدري فأكلته» وفيه: فلم يعنفه صلى الله عليه وسلم ، وقوله  صلى الله عليه وسلم : «وليقعد في بيته» صريح في أن أكل هذه الأشياء عذر في التخلف عن الجماعة. وأيضا هنا علتان: أذى المسلمين وأذى الملائكة؛ فبالنظر إلى الأولى يعذر في ترك الجماعة وحضور المسجد، وبالنظر إلى الثانية يعذر في ترك حضور المسجد ولو كان وحده اهـ ملخصا. أقول: كونه يعذر بذلك ينبغي تقييده بما إذا أكل ذلك بعذر أو أكل ناسيا قرب دخول وقت الصلاة لئلا يكون مباشرا لما يقطعه عن الجماعة بصنعه.

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144201200819

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں