بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بارش کی چھینٹوں کا کیا حکم ہے؟


سوال

بارش کی  چھینٹوں کا کیا حکم ہے؟

جواب

     بارش کے پانی کی چھینٹوں کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں:

1- بارش کا پانی جو زمین پر جمع ہوجائے اور ان میں  نالی (گٹر وغیرہ) کا گندا پانی ملا ہوا نہ ہو تو   اگر اس کی چھینٹیں جسم یا کپڑے پر پڑجائیں تو ا سے پاک ہی سمجھا جائے گا، اور اس کے ساتھ نماز درست ہوگی۔

2- اگر بارش کے پانی میں گٹر کا پانی یا کوئی اور نجاست مل جائے اور  نجاست کا اثر (رنگ، بو یا مزہ) اس پانی میں محسوس ہو تو یہ پانی ناپاک شمار ہوگا، اور اس میں پڑنے والی چھینٹیں بھی ناپاک ہوں گی۔

3- اگر بارش کا پانی ناپاک پانی میں مل کر اتنی مقدار میں بہے (جیساکہ  تیز بارش میں نشیبی راستوں میں بہتا ہے) کہ ناپاکی کا اثر ختم ہو جائے (یعنی نجاست کا رنگ، بو یا مزہ اس پانی میں نہ رہے) تو وہ پانی ماءِ جاری بن کر پاک ہوگا اور اس میں پڑنے والی چھینٹیں پاک  ہوں گی۔

4- اگر بارش کے پانی میں ناپاکی ملی ہوئی اور وہ پانی ایک ہی جگہ جمع ہو، بہہ کر نہ جارہا ہو،  لیکن پانی کا پھیلاؤ 225 اسکوائر فٹ سے زیادہ ہو  اور پانی میں ناپاکی کا اثر (رنگ، مزہ یا بو) محسوس نہ ہو تو بھی یہ پانی پاک ہوگا۔

5- اگر بارش کا پانی ایک ہی جگہ جمع ہو (بہہ کر نہ جا رہا ہو) اور اس کا پھیلاؤ 225 اسکوائر فٹ سے کم ہو اور اس میں کوئی ناپاکی ہو خواہ ناپاکی کا اثر محسوس نہ ہو، یا  پانی کا پھیلاؤ 225 اسکوائر فٹ  سے زیادہ ہو، لیکن پانی میں نا پاکی کا کوئی اثر محسوس ہو تو یہ ناپاک ہوگا اور اس میں پڑنے والی چھینٹیں بھی ناپاک ہوں گی۔

جن صورتوں میں  پانی ناپاک ہو، اگر اس کی چھینٹیں سوئی کے ناکے کے برابر چھوٹی ہوں تو وہ معاف ہیں، اسی طرح  اگر ان چھینٹوں کا پھیلاؤ ایک درہم کے برابر یا اس سے  کم ہو اور وہ جسم یا کپڑے پر لگ جائیں تو  ان کو دھونا  بہتر ہے اور  بغیر دھوئے بھی نماز ہوجائے گی، البتہ درہم کے برابر ہوں اور دھوئے بنا نماز پڑھ لی تو کراہت ہوگی، اور اگر  چھینٹیں  ایک درہم سے زیادہ ہیں  تو جسم یا کپڑے کو تین مرتبہ دھوکر پاک کرنا ضروری ہوگا۔  ان کو دھوئے بغیر نماز پڑھ لی  تو نماز نہیں ہوگی۔

الدر مع الرد(324/1):

  بِأَنَّ الْبَوْلَ الَّذِي كَرُءُوسِ الْإِبَرِ اُعْتُبِرَ كَالْعَدَمِ لِلضَّرُورَةِ وَلَمْ يَعْتَبِرُوا فِيهِ قَدْرَ الدِّرْهَمِ بِدَلِيلِ مَا فِي الْبَحْرِ أَنَّهُ مَعْفُوٌّ عَنْهُ لِلضَّرُورَةِ وَإِنْ امْتَلَأَ الثَّوْبُ. اهـ. وَمَعْلُومٌ أَنَّ مَا يَمْلَأُ الثَّوْبَ يَزِيدُ عَلَى الدِّرْهَمِ، وَكَذَا قَوْلُ الشَّارِحِ وَإِنْ كَثُرَ بِإِصَابَةِ الْمَاءِ، فَإِنَّهُ لَا فَرْقَ بَيْنَ كَثْرَتِهِ بِالْمَاءِ وَبَيْنَ اتِّصَالِ بَعْضِهِ بِبَعْضٍ.۔۔۔۔ وَفِي الْفَيْضِ: طِينُ الشَّوَارِعِ عَفْوٌ وَإِنْ مَلَأَ الثَّوْبَ لِلضَّرُورَةِ وَلَوْ مُخْتَلِطًا بِالْعَذِرَاتِ وَتَجُوزُ الصَّلَاةُ مَعَهُ. ۔۔۔۔وَالْحَاصِلُ أَنَّ الَّذِي يَنْبَغِي أَنَّهُ حَيْثُ كَانَ الْعَفْوُ لِلضَّرُورَةِ، وَعَدَمُ إمْكَانِ الِاحْتِرَازِ أَنْ يُقَالَ بِالْعَفْوِ وَإِنْ غَلَبَتْ النَّجَاسَةُ مَا لَمْ يَرَ عَيْنَهَا لَوْ أَصَابَهُ بِلَا قَصْدٍ وَكَانَ مِمَّنْ يَذْهَبُ وَيَجِيءُ، وَإِلَّا فَلَا ضَرُورَةَ.

المبسوط للسرخسی (60/1):

قلت فَإِن أصَاب يَده بَوْل أَو دم أَو عذرة أَو خمر هَل ينْقض ذَلِك وضوءه قَالَ لَا وَلَكِن يغسل ذَلِك الْمَكَان الَّذِي أَصَابَهُ قلت فَإِن صلى بِهِ وَلم يغسلهُ قَالَ إِن كَانَ أَكثر من قدر الدِّرْهَم غسله وَأعَاد الصَّلَاة وَإِن كَانَ قدر الدِّرْهَم أَو أقل من قدر الدِّرْهَم لم يعد الصَّلَاة۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203200342

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں