بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

باریک دو پٹہ جس سے بال نظر نہ آتے ہوں اس کا حکم


سوال

ایسا باریک  دوپٹہ پہننا جس کو رنگ دیا گیا ہو اور اس سے سر نظر نہ آتا ہو، کیا حکم ہے اس کے بارے میں؟

جواب

لباس  کا کم ازکم درجہ یہ ہے کہ وہ ( لباس) ساتر ہو، یعنی جس حصے کا چھپانا واجب ہے وہ کھلا نہ رہے، نہ ایسا باریک ہو کہ جسم نظر آنے لگے اور نہ اتنا چست ہو کہ بدن کے جن اعضا کو چھپانا ضروری ہے ان میں سے کسی کی بناوٹ اور حجم نظر آجائے، لہٰذا اگر لباس اتنا چست اور تنگ ہو کہ اس سے مستورہ اعضاء کی بناوٹ اور حجم نظر آتا ہو تو اس کو پہننا، اسے پہن کر نماز پڑھنا، باہر نکلنا، لوگوں کو دکھانا  سب ناجائز ہے اور اس حالت میں دوسروں کا اسے دیکھنا بھی ممنوع ہے۔ 

لہذا صورتِ  مسئولہ میں مذکورہ دو پٹے  سے باریک ہونے کے باوجود  اگر بال نظر نہیں آتے تو اس کا پہننا جائز ہے، تاہم گھر سے باہر نکلنے کی صورت میں موٹی چادر یا برقعہ لینا چاہیے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قَوْلُهُ: لَايَصِفُ مَا تَحْتَهُ) بِأَنْ لَايُرَى مِنْهُ لَوْنُ الْبَشَرَةِ احْتِرَازًا عَنْ الرَّقِيقِ وَنَحْوِ الزُّجَاجِ (قَوْلُهُ: وَلَايَضُرُّ الْتِصَاقُهُ) أَيْ بِالْأَلْيَةِ مَثَلًا، وَقَوْلُهُ: وَتَشَكُّلُهُ مِنْ عَطْفِ الْمُسَبَّبِ عَلَى السَّبَبِ. وَعِبَارَةُ شَرْحِ الْمُنْيَةِ: أَمَّا لَوْ كَانَ غَلِيظًا لَايُرَى مِنْهُ لَوْنُ الْبَشَرَةِ إلَّا أَنَّهُ الْتَصَقَ بِالْعُضْوِ وَتَشَكَّلَ بِشَكْلِهِ فَصَارَ شَكْلُ الْعُضْوِ مَرْئِيًّا فَيَنْبَغِي أَنْ لَايَمْنَعَ جَوَازَ الصَّلَاةِ لِحُصُولِ السَّتْرِ. اهـ."

(كتاب الصلاة، باب شروط الصلاة، مطلب في ستر العورة، ١/ ٤١٠)

في عمدة القاري:

"أَنه صَلَّی اللَّه علیه وَسَلَّم  حذر أهله وَجَمِیع الْمُؤْمِنَات من لِبَاس رَقیق الثِّیاب الواصفة لأجسامهن بقوله: کم من کاسیة في الدنیا عاریة یوم القیامة، وفهم منه أن عقوبة لابسة ذلك أن تعری یوم القیامة".

 ( باب ماکان النبي صلی الله علیه وسلم یتجوز من اللباس ، ج: ۲۲، ص: ۲۰، ط: دار إحیاء التراث العربي)

في تکملة فتح الملهم:

"فکل لباس ینکشف معه جزء من عورة الرجل والمرأة لاتقره الشریعة الإسلامیة ..... وکذلك اللباس الرقیق أو اللا صق بالجسم الذي یحکي للناظر شکل حصة من الجسم الذي یجب ستره، فهو في حکم ماسبق في الحرمة وعدم الجواز".

( کتاب اللباس والزینة:۴/۸۸) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203201571

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں