بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بڑی بستی میں نماز جمعہ شروع کرنے کا حکم


سوال

 ہمارے ہاں ایک علاقہ  (بنکڑ سولگر) ہے،  جس میں مختلف سہولیات موجود ہیں، جیسے: چیک پوسٹ، کلینک، سکول، آٹے کی مل، مرغی کی دکانیں، لوہار، خورد ونوش کی چیزیں،اور مرد اور عورتیں تقریبا چار ہزار تک وہاں موجود ہیں، اسی طرح وہاں دو مدرسہ بھی ہیں، جس میں تقریبا ایک سو پچاس طلبہ زیر تعلیم ہیں، اس علاقہ میں ایک جگہ (چکے نالہ) ہے جس میں ابھی جمعہ شروع کیا گیاہے، لیکن اب اختلاف ہوا ہے، بعض کہہ رہے ہیں کہ: یہاں(بنکڑ سولگر) میں جمعہ پڑھنا درست نہیں ہے، اور بعض کہہ رہے ہیں کہ: جمعہ درست ہے، اور جس مسجد میں جمعہ کی نماز شروع ہوگئی ہے اس  مسجد میں دیگر نمازوں میں لوگوں کی تقریبا تین صفیں ہوتی ہیں، البتہ عشاء اور فجر میں تین چار بندے ہوتے ہیں، اور یہ لوگ طلبہ کے علاوہ ہیں۔

تو کیا علاقہ (بنکڑ سولگر) میں جمعہ پڑھنا جائز ہے کہ نہیں؟

وضاحت: علاقہ بنکڑ سولگر میں پہلے نماز جمعہ قائم نہیں ہوتی تھی، اب ایک مولانا صاحب نے جمعہ قائم کرنا شروع کیا ہے، اسی طرح یہاں، ڈاکخانہ، تھانہ اور بعض دیگر ضروریات زندگی موجود نہیں ہیں۔

جواب

واضح رہے کہ احناف کے نزدیک  جمعہ کی نماز صحیح ہونے  کے لیے شہر   یا بڑی بستی کا ہونا ضروری ہے، چھوٹے گاؤں یا  چھوٹی بستی میں نماز  جمعہ درست نہیں ہے،فقہاء کرام رحمہم اللہ کے نزدیک شہر یا بڑی بستی اس جگہ کو کہا جاتاہے، جہاں کی آبادی کم از کم ڈھائی،تین ہزار تک پہنچتی ہواور وہاں تمام ضروریاتِ زندگی پوری ہوتی  ہوں۔

 صورتِ مسئولہ میں  مذکورہ علاقہ(بنکڑ سولگر) سائل کے بیان کے مطابق شہر یا بڑی بستی کے حکم میں نہیں ہے؛ لہذا اس علاقہ میں جمعہ کی نماز قائم کرنا   شرعا نا درست ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"‌أما ‌المصر ‌الجامع فقد اختلفت الأقاويل في تحديده ذكر الكرخي أن المصر الجامع ما أقيمت فيه الحدود ونفذت فيه الأحكام، وعن أبي يوسف روايات ذكر في الإملاء كل مصر فيه منبر وقاض ينفذ الأحكام ويقيم الحدود فهو مصر جامع تجب على أهله الجمعة، وفي رواية قال: إذا اجتمع في قرية من لا يسعهم مسجد واحد بنى لهم الإمام جامعا ونصب لهم من يصليبهم الجمعة، وفي رواية لو كان في القرية عشرة آلاف أو أكثر أمرتهم بإقامة الجمعة فيها، وقال بعض أصحابنا: المصر الجامع ما يتعيش فيه كل محترف بحرفته من سنة إلى سنة من غير أن يحتاج إلى الانتقا ل إلى حرفة  أخرى، وعن أبي عبد الله البلخي أنه قال: أحسن ما قيل فيه إذا كانوا بحال لو اجتمعوا في أكبر مساجدهم لم يسعهم ذلك حتى احتاجوا إلى بناء مسجد الجمعة فهذا مصر تقام فيه الجمعة، وقال سفيان الثوري: المصر الجامع ما يعده الناس مصرا عند ذكر الأمصار المطلقة...وروي عن أبي حنيفة أنه بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق ولها رساتيق وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمه وعلمه أو علم غيره والناس يرجعون إليه في الحوادث وهو الأصح."

[كتاب الصلاة، فصل في بيان شرائط الجمعة، ج:1، ص:260، ط:دارالكتب العلمية]

تبیین الحقائق میں ہے:

"(وهو) أي المصر (كل موضع ‌له ‌أمير ‌وقاض ينفذ الأحكام ويقيم الحدود)، وهذا رواية عن أبي يوسف، وهو اختيار الكرخي وعنه أنهم لو اجتمعوا في أكبر مساجدهم لا يسعهم، وهو اختيار البلخي وعنه هو كل موضع يكون فيه كل محترف ويوجد فيه جميع ما يحتاج الناس إليه في معايشهم وفيه فقيه مفت وقاض يقيم الحدود."

[كتاب الصلاة ، باب صلاة الجمعة، ج:1، ص:217، ط: المطبعة الكبرى، بولاق]

فتاوی دار العلوم دیوبند میں ہے:

 "سوال : دو گاؤں کے درمیان ایک کوس کا فاصلہ ہے اور پہلے گاؤں کی آبادی تین ہزار کی ہے اور دوسرے گاؤں میں تین مسجدیں ہیں اور جمعہ ہوتا ہے۔ پہلے گاؤں اور دوسرے گاؤں میں جمعہ فرض ہے یا نہیں؟

جواب : پہلا گاؤں بڑا ہے، اس میں جمعہ فرض ہے اور دوسرا گاؤں بھی اگر ایسا ہی بڑا ہے تو وہاں بھی فرض ہے۔"

(کتاب الصلاۃ، الباب الخامس عشر فی صلاۃ الجمعۃ، تین ہزار کی آبادی میں جمعہ، ج:5، ص:107، دارالاشاعت)

وفیہ ایضاً:

"فقہاء نے تصریح فرمائی ہے کہ قصبات اور قریہ کبیرہ میں نماز جمعہ فرض  ہے اور ادا ہوتی ہے اور یہ بھی تصریح فرمائی ہے کہ چھوٹے قریہ میں باتفاق علماۓ حنفیہ جمعہ نہیں ہوتا ، اور قریہ کا چھوٹا بڑا ہونا مشاہدہ سے اور کثرت و قلت آبادی سے معلوم ہوتا ہے ، جس قریہ میں تین چار ہزار آدمی آباد ہوں گے ظاہرا وہ قریہ کبیرہ بحکم قصبہ ہو سکتا ہے اور اس سےکم آبادی ہو تو وہ قریہ صغیرہ کہلائے گا۔"

(كتاب الصلوۃ ،باب الجمعة ، ج: ۵،ص:۱۲۴ط: دارالاشاعت)

کفایت المفتی میں ہے:

"جمعہ کے مسئلے میں شہر سے مراد ایسی بستی ہے جہاں ضرورت کی چیزیں مل جاتی ہوں، تھانہ یاتحصیل اور ڈاکخانہ ہو، کوئی عالم یعنی مسائل ضروریہ بتانے والا اور کوئی معالج موجود ہو۔"

(کتاب الصلاہ، ج:3، ص: 249، ط: دار الاشاعت)

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

"آپ  کی بستی شہر یا قصبہ ہو یا قصبہ نما بڑا گاؤں ہو  اور اہل حرفہ (جن کی اکثر وبیشتر ضرورت ہوتی ہو) موجود ہوں اور لوگوں کے حوائج ضروریہ پورے ہوتے ہوں اور خورد ونوش کا ساماں اور کپڑا وغیرہ بکتاہو تو جمعہ صحیح ہوگا ورنہ نماز جمعہ پڑھنے کی اجازت نہیں ہوگی۔"

(کتاب الصلاہ، ج:6، ص: 90، ط: دار الاشاعت)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"جن حوائج کے بغیر وہاں کے رہنے والوں کی معاشرت دشوار ہوجائے، غلہ، کپڑا، دوا، برتن وغیرہ کہ ان کی مستقل دوکانیں ہوں اور یہ چیزیں ہمیشہ ملتی ہوں، آس پاس کے دیہات کے لوگ بھی وہاں سے اپنی حوائج کا انتظام کرتے ہوں، حکیم یاڈاکٹر ہو، ڈاکخانہ ہو، مدرسہ، اسکول ہو، کچہری یا پنچائتی نظام نزاعات کا فیصلہ کرنے کے لیے ہو، یہ امارات وعلامات ہیں، حد حقیقی نہیں۔"

(کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجمعہ،ج:۸، ص:۵۹، ط:ادارۃ الفاروق)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403101474

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں