بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بڑی عمرکے بچے کا عقیقہ کرتے وقت بال کاٹنے کا حکم


سوال

عقیقہ میں بڑے بچہ کے بال کاٹنا ضروری ہے یا نہیں ؟ اگر نہیں کاٹ سکتا توکیا اس کی طرف سے صدقہ کرنا ضروری جیسے کہ چھوٹے بچہ کے بال کا صدقہ دیا جاتا ہے؟

جواب

پیدائش کے ساتویں، چودہویں  یا اکیسویں روز عقیقہ کرنا مسنون ہے۔  اکیسویں دن کے بعد عقیقہ کا مستحب وقت ختم ہوجاتا ہے، اس کے بعد  اگر عقیقہ کرنا چاہتا ہے تو جب تک وہ لڑکا یا لڑکی زندہ ہےتب تک عقیقہ کیا جا سکتا ہےالبتہ  بڑی عمر میں بچے کا عقیقہ کرنا مباح ہے،تاہم  بڑی عمر میں  عقیقہ کرنے کی صورت میں بال کٹوانا ضروری نہیں ہے ؛ کیوں کہ عقیقہ کے بعد بال منڈوانے کا جو عمل ہے،  اس سے مقصود بچے کے سر کے وہ بال صاف کرنا مقصود ہوتا ہے، جو پیدائش کے وقت بچے کے سر پر موجود ہوں،جب کہ بچے کے بڑے ہونے کے بعد پیدائش کے بال سر پر موجود نہیں ہوتے۔

 فيض الباري شرح صحيح البخاري میں ہے:

"ثم إن الترمذي أجاز بها إلى يوم إحدى وعشرين. قلتُ: بل يجوز إلى أن يموت، لما رأيت في بعض الروايات أنَّ النبيَّ صلى الله عليه وسلّم عقّ عن نفسه بنفسه". 

 (كتاب العقيقه،باب إماطة الأذى عن الصبي في العقيقة،ج:5ص:648،ط:دارالكتب العلميه)

فتاوی شامی میں ہے:

"يستحب لمن ولد له ولد أن يسميه يوم أسبوعه ويحلق رأسه ويتصدق عند الأئمة الثلاثة بزنة شعره فضةً أو ذهباً ثم يعق عند الحلق عقيقة إباحة على ما في الجامع المحبوبي، أو تطوعاً على ما في شرح الطحاوي".

(كتاب الحظر والإباحة، ج: 6، صفحہ: 336، ط:سعید)

عمدة القاري شرح صحيح البخاري میں ہے:

"قوله: (ويحلق رأسه) ، على صيغة المجهول. أي: يحلق جميع رأسه لثبوت النهي عن القزع، وحكى الماوردي كراهة حلق رأس الجارية. وعن بعض الحنابلة يحلق. قلت: هذا أولى لأن في حديث سلمان: أميطوا عنه الأذى ومن جملة الأذى شعر رأسه الملوث من البطن، وبعمومه يتناول الذكر والأنثى وروى الترمذي من حديث علي بن أبي طالب. رضي الله تعالى عنه، قال: عق النبي صلى الله عليه وسلم، عن الحسن بشاة. وقال: يا فاطمة أحلقي رأسه وتصدقي بزنة شعره فضة، فوزناه فكان وزنه درهما أو بعض درهم".

(کتاب العقیقۃ، باب إماطة الأذى عن الصبي في العقيقة، ج:21، ص:88، ط:داراحیاء التراث)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407100425

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں