بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بڑی عمر میں عقیقہ کرتے وقت بال مونڈنے کا حکم


سوال

عقیقہ میں بچے کے بال نکالے جاتے ہیں، ہمارے یہاں شادی کے موقع پر عقیقہ کیا جاتا ہے، اس وقت بڑی عمر کے لڑکے یا لڑکی  کے بال نکالنے کا کیا حکم ہے؟ اگر نکالنا ضروری ہے تو کیسے نکالیں؟

جواب

پیدائش کے ساتویں روز عقیقہ کرنا مسنون ہے، اگر کسی وجہ سے ساتویں روز نہ کر سکیں، تو چودہویں روز کر لیا جائے، اگر چودہویں روز بھی نہ کرسکیں تو اکیسویں روز کر لیا جائے،  اکیسویں دن کے بعد عقیقہ کا مستحب وقت ختم ہوجاتا ہے، اس کے بعد عقیقہ کرنا مباح ہے، اگر کرلے تو ادا ہوجاتا ہے، تاہم جب بھی عقیقہ کرے  بہتر یہ ہے کہ پیدائش کے دن  کے حساب سے ساتویں دن کرے۔

نیز عقیقہ کے جانور کو ذبح کرنے کے بعد نومولود کے سر کے بال صاف کردیے جائیں، اور بالوں کے وزن کے بقدر چاندی یا اس کی قیمت صدقہ کردی جائے، اور بالوں کو کوڑا کرکٹ میں نہ پھینکا جائے، بلکہ کسی جگہ دفن کر دینا چاہیے۔

     مستحب یہ ہے کہ عقیقہ کرنے کے بعد بچے کے بال منڈوائے جائیں، لیکن اگر کسی وجہ سے عقیقہ میں تاخیر ہوجانے کا احتمال ہو تو اس کی وجہ سے بال کٹوانے میں تاخیر کرنا لازم نہیں ہے، بلکہ اگر عقیقہ میں تاخیر یقینی ہو تو ساتویں روز بال صاف کردینے چاہییں، تاہم ساتواں دن لازم نہیں ہے۔

لہٰذا آپ کے یہاں بچوں کا عقیقہ بچپن میں پیدائش کے بعد کرنے کے بجائے شادی کے موقع پر کرنے کا جو رواج ہے یہ خلافِ سنت ہونے کی وجہ سے قابلِ ترک ہے،  بہتر یہ ہے کہ مستحب اوقات میں عقیقہ کیا جائے، البتہ اگر کسی لڑکے یا لڑکی کا عقیقہ بچپن میں نہ کیا گیا ہو تو بڑی عمر میں بھی کسی بھی وقت اس کا عقیقہ کرنا جائز ہے، خاص شادی کے وقت ہی عقیقہ کرنے کا التزام کرنا بھی درست نہیں، بہرحال بڑی عمر میں شادی کےموقع پر عقیقہ کرنے کی صورت میں بال کٹوانا ضروری نہیں ہے ؛ کیوں کہ عقیقہ کے بعد بال منڈوانے کا جو عمل ہے،  اس سے مقصود بچے کے سر کے وہ بال صاف کرنا مقصود ہیں جو پیدائش کے وقت بچے کے سر پر موجود ہوں،جب کہ شادی کے موقع پر عام طور سے لڑکے یا لڑکی کے سر پر پیدائش کے وقت والے بال موجود نہیں ہوتے ہیں۔نیز  ملحوظ رہے کہ  بالغ  جو ان  لڑکیوں کے بال مکمل کاٹنا جائز بھی نہیں ہے۔

إعلاء السنن :

"أنها إن لم تذبح في السابع،  ذبحت في الرابع عشر، و إلا ففي الحادي و العشرین، ثم هکذا في الأسابیع."

(17/117، باب العقیقة، ط: إدارة القرآن والعلوم الإسلامیة)

فيض الباري شرح صحيح البخاري (5/ 88):

"ثم إن الترمذي أجاز بها إلى يوم إحدى وعشرين. قلتُ: بل يجوز إلى أن يموت، لما رأيت في بعض الروايات أنَّ النبيَّ صلى الله عليه وسلّم عقّ عن نفسه بنفسه". 

سنن النسائي (7/ 166):

"متى يعق؟

" أخبرنا عمرو بن علي، ومحمد بن عبد الأعلى قالا: حدثنا يزيد وهو ابن زريع، عن سعيد، أنبأنا قتادة، عن الحسن، عن سمرة بن جندب، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «كل غلام رهين بعقيقته تذبح عنه يوم سابعه ويحلق رأسه ويسمى»".

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (21/ 88):

"وقد أخرجه أصحاب السنن من رواية قتادة عن الحسن عن سمرة عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: الغلام مرتهن بعقيقته، يذبح عنه يوم السابع ويحلق رأسه ويسمى. وقال الترمذي: حسن صحيح. قال: والعمل على هذا عند أهل العلم يستحبون أن يذبح عن الغلام العقيقة يوم السابع. فإن لم يتهيأ يوم السابع فيوم الرابع عشر، فإن لم يتهيأ عق عنه يوم إحدى وعشرين قوله: مرتهن، بفتح التاء معناه: رهن بعقيقته يعني: العقيق لازمة له لا بد منها، فشبهه بلزومها له وعدم انفكاكه منها بالرهن في يد المرتهن.
وقال الخطابي: تكلم الناس في هذا وأجود ما قيل فيه ما ذهب إليه أحمد بن حنبل، رحمه الله. قال: هذا في الشفاعة، يريد أنه إذا لم يعق عنه فمات طفلا لم يشفع في والديه، وقيل: مرهون بأذى شعره، ويروى: كل غلام رهينة بعقيقته الرهينة الرهن والهاء للمبالغة كالشتيمة والشتم ثم استعملا بمعنى المرهون، يقال: هو رهن بكذا ورهينة بكذا.

قوله: (يذبح عنه يوم السابع) ، على صيغة المجهول وقد احتج به من قال: إن العقيقة مؤقتة باليوم السابع، فإن ذبح قبله لم يقع الموقوع، وإنها تفوت بعده، وهذا قول مالك، وعند الحنابلة في اعتبار الأسابيع بعد ذلك روايتان، وعند الشافعية أن ذكر السابع للاختيار لا للتعيين، ونقل الرافعي أنه يدخل وقتها بالولادة، قال: وذكر السابع في الخبر بمعنى أن لا يؤخر عنه إختياراً، ثم قال: والاختيار أن لايؤخر عن البلوغ فإن أخرت إلى البلوغ سقطت عمن كان يريد أن يعق عنه. لكن إن أراد هو أن يعق عن نفسه فعل\".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 336):

"يستحب لمن ولد له ولد أن يسميه يوم أسبوعه ويحلق رأسه ويتصدق عند الأئمة الثلاثة بزنة شعره فضةً أو ذهباً ثم يعق عند الحلق عقيقة إباحة على ما في الجامع المحبوبي، أو تطوعاً على ما في شرح الطحاوي".

الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي (4/ 2747):

"تذبح يوم سابع ولادة المولود، و يحسب يوم الولادة من السبعة. فإن ولدت  ليلاً، حسب اليوم الذي يليه ...  وصرح الشافعية والحنابلة: أنه لو ذبح قبل السابع أو بعده، أجزأه".

حاشية الدسوقى على الشرح الكبير :

"و (ندب) ولو لم يعق عنه حلق رأس المولود ولو انثى و (التصدق) بزنة شعره".

 (۲ ؍ ۳۹۸ ، ط: دار الکتب العلمیة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144212201961

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں