بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شعبان 1446ھ 08 فروری 2025 ء

دارالافتاء

 

بری میں ملنے والے زیورات کا حکم


سوال

میرے شوہر مجھے طلاق دے چکے ہیں،میرے دو بچے (ایک لڑکا اور ایک لڑکی)جن کی عمر سوا دو سال اور 11ماہ ہے،میری طلاق کو سات ماہ ہوچکےہیں،میرے سابقہ شوہر نے بچوں کا کوئی خرچہ نہیں دیاہے،آپ سے مجھے جو سوال پوچھنا ہے وہ یہ ہے کہ میری شادی پرمیرے سسرال کی طرف سے جو زیورات مجھے تحفے میں دیے گئے تھے،جن میں ایک لاکٹ سیٹ میرے سسرال کی طرف سے یہ کہہ کر دیا گیا تھا کہ یہ ہماری طرف سے ہے اور کوئی شرط وغیرہ نہیں رکھی گئی تھی،ا س کے بعد میرے شوہر نے شادی کی رات مجھے ایک چھوٹا سا لاکٹ سیٹ بغیر چین کے دیا تھایعنی میری منہ دکھائی،اور دو لاکٹ سیٹ میری جیٹھانیوں (میرے شوہر کے بھائی کی بیویوں)نے لاکٹ سیٹ بغیر چین کے مجھے منہ دکھائی کے طورپر دیے،ایک سیٹ بالیوں کا میری ساس کی طرف سے مجھے دیا گیا،شادی کے کچھ عرصہ بعد میرے سسر اور شوہر نے زبردستی مجھ سے یہ زیورات یہ کہہ کر لیے کہ یہاں چوریاں ہوتی ہیں،علاقہ کے حالات ٹھیک نہیں ہیں،یہ زیورات ہمارے پاس رکھوا دو، جب ضرورت ہوگی تو ہم آپ کو دے دیں گے،میں دینا نہیں چاہتی تھی، مگر میرے شوہر نے زیورات اپنے والد کو دے دیے،اور مجھ سے کہا گیا کہ یہ ہمارے پاس امانت ہیں،جب آپ کو ضرورت ہوگی تو ہم آپ کو دے دیں گے،میں نے بھی کہا کہ یہ میری طرف سے آپ کے پاس امانت ہیں،اب جب مجھے طلاق ہوچکی ہے تو وہ میرے یہ زیورات نہیں دے رہے ، جب کہ میرے جہیز کے سامان کے ساتھ بری کا سامان (جو سسرا ل والوں نے شادی کے وقت مجھے دیا تھا جس میں کپڑے،جوتے،پرس ،کانچ کی چوڑیاں وغیرہ شامل ہیں)سب دے دیا ہے،صرف سونے کے زیورات جو کہ امانت کہہ کر زبردستی لیے گئے تھے،وہ نہیں دیے،آپ میری راہ نمائی فرمائیں کہ ان زیورات پر میرا حق ہے یا نہیں؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں شادی کے موقع پر سسرال کی طرف سے سائلہ کو دیے گئے زیورات دیتے وقت کہا گیا تھا کہ یہ ہماری طرف سے ہیں اور اس کے علاوہ کوئی شرط نہیں لگائی گئی تھی تو یہ سب زیورات اور منہ دکھائی میں دیا گیا لاکٹ سیٹ سائلہ کی ملکیت شمار ہوگا،سسرال والوں  کا مذکورہ زیورات اپنے پاس رکھ لینا جائز نہیں ان پر اس کا لوٹانالازم ہے۔

”فتاوی ہندیہ“ میں ہے:

"وإذا بعث الزوج ‌إلى ‌أهل ‌زوجته أشياء عند زفافها منها ديباج فلما زفت إليه أراد أن يسترد من المرأة الديباج ليس له ذلك إذا بعث إليها على جهة التمليك، كذا في الفصول العمادية."

(كتاب النكاح، الباب السابع، الفصل السادس عشر 327/1، ط:دار الفکر)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

”سوال:بوقتِ نکاح لڑکی کو شوہر کی طرف سے جو کپڑے زیور وغیرہ دیئے جاتے ہیں جس کو اردو میں ”بری“کہتےہیں،بعد نکاح یہ بری کی اشیاء کس کی ملکیت میں محسوب ہوتی ہیں؟

جواب:اس میں عرف پر مدار ہے،اگر دیتے وقت کوئی تصریح نہ ہو تو عرف پر مدار ہے۔“

(کتاب النکاح، باب المہر، 121/12، ط:فاروقیہ)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144606102701

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں