بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بری میں دیے گئے زیورات کو مہر قرار دینے کا حکم


سوال

میرے بیٹے  کا نکاح چھ مہینے پہلے ہوا تھا ،جس میں ان کا مہر 50000 طے پایا تھا ،اب چھ مہینے بعد رخصتی ہوگئی ہے ،جس میں ہم نے دلہن کو سونے کا سیٹ دیا ہے ،جس کی مالیت لاکھ سے زیادہ ہے ،مجھے پوچھنا یہ تھا  کہ کیا ہم یہ سونے کا سیٹ مہر کے طور پر ادا کرسکتے ہیں ؟مطلب یہ ہے کہ 50000 کی جگہ ہم یہ سیٹ دے دیں جس سے مہر ادا ہوجائے ،آپ مہربانی کرکے مجھے جواب تحریر کردیں ۔

جواب

صورتِ مسئولہ  میں اگر ابھی تک دلہن کو  مذکورہ سونے کا سیٹ ہدیہ (گفٹ ) نہیں کیا گیا ہے  اور خاندان میں بری کا سونا  مالکانہ طور پر دینے کا رواج نہیں ،بلکہ عاریۃ دینے کا رواج ہے تو اس صورت میں  مہر میں مقرر شدہ  رقم کی جگہ یہ  سیٹ بطور مہر  دے سکتے ہیں ، اور  اگر سونے کا سیٹ ہدیہ کردیا گیا ہےیا خاندان میں بری کا سونا مالکانہ طور پر  دینے کا رواج ہے یا کوئی رواج نہیں ،تو یہ سیٹ دیتے ہی بہو اس کی مالکہ بن گئی  ،لہذا     اب یہ سیٹ مہر کی جگہ نہیں رکھا جاسکتا  ؛کیونکہ دلہن پہلے ہی اس کی مالکہ بن چکی ہے، مہر کی رقم الگ سے دینا ضروری ہے۔

الفتاوى الهندية :

"الزيادة في المهر صحيحة حال قيام النكاح عند علمائنا الثلاثة، كذا في المحيط. فإذا زادها في المهر بعد العقد لزمته الزيادة، كذا في السراج الوهاج".

(1/ 312 ط : دار الفكر)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين :

"(ولو بعث إلى امرأته شيئا ولم يذكر جهة عند الدفع غير) جهة (المهر) كقوله لشمع أو حناء ثم قال إنه من المهر لم يقبل قنية لوقوعه هدية فلا ينقلب مهرا۔"

(رد المحتار3/ 151ط:سعید)

الفتاوى الهندية  میں ہے:

"وإذا بعث الزوج إلى أهل زوجته أشياء عند زفافها منها ديباج فلما زفت إليه أراد أن يسترد من المرأة الديباج ليس له ذلك إذا بعث إليها على جهة التمليك، كذا في الفصول العمادية."

(۱/۳۲۷، رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100488

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں