بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بری کے سامان اور زیور کا حکم


سوال

لڑکا اور لڑکی میں دو سال پہلے نکاح ہوا تھا ،دونوں کی بدمزاجی  کی وجہ سے  نکاح ختم ہو گیا ،لڑکی ویزا لگوانے عمان گئی تھی اور لڑکے کے ساتھ رہی،  لیکن دونوں میں کوئی جسمانی تعلق قائم نہیں ہوا ،مہر میں دو لاکھ مقرر ہوا تھا،دوسال کے عرصے میں لڑکے کی طرف سے ایک آئی فون موبائل تحفے میں دیا گیا ،بارہ جوڑے ،اس کے علاوہ مختلف وقت میں  لڑکے کی بہنوں نے تحفے لڑکی کو دیے ۔زیورات جو نکاح میں چڑھائے گئے وہ یہ ہیں :بھاری سیٹ چھ تولہ ،ایک انگوٹھی ،لاکٹ سونے کا ،ٹاپس سونے کے ، اس کے علاوہ دو سال میں مسلسل تحفے دیتے رہے۔لیکن اس  دو سال کے عرصے میں لڑکی کی طرف سے صرف ایک انگوٹھی  نکاح کے وقت پہنائی گئی ،لڑکا دو سال سے مسقط میں ہے ،جنوری میں آیا ،لڑکی کی  مرضی سے لڑکی کو 17 جنوری کو طلاق دے کر واپس چلا گیا ۔

ایک مفتی صاحب نے اس صورت میں شادی کا فتوی دیا اور مہر پورا دو لاکھ روپے لڑکی کو دلوا دیا۔

نیز مفتی صاحب نے فتوی دیا کہ جو زیور لڑکی کو نکاح کے وقت دیا گیا تھا وہ  شرعی اعتبار سے اب لڑکی کا ہے،اخلاقی اعتبار سے اسے واپس کرنا چاہیے ۔

آپ شرعی اعتبار سے بتائیں کہ مہر اور اس  زیور کا کیا حکم ہے جو لڑکے کے گھر سے  لڑکی کو ملا تھا ، آیا لڑکے کے والدین کو یہ زیورواپس ملنا چاہیے  یا نہیں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں نکاح کے بعد چوں کہ لڑکا اورلڑکی میں خلوت ہوچکی ہے ، اگرچہ جسمانی تعلق قائم نہیں ہوا، لہذا لڑکی کو مکمل مہر ملے گا۔

لڑکے کے گھر والوں کی جانب سے دیئے گئے تحائف اور زیور کا حکم مندرجہ ذیل ہے :

لڑکے والوں کی طرف سے  لڑکی کو جو عام  استعمال کی چیزیں (مثلاً کپڑے ، جوتے ، وغیرہ )لڑکی کو  دی جاتی ہیں  وہ سب لڑکی کی ملکیت ہوتی ہیں،  ان کی واپسی کا مطالبہ درست نہیں ۔

لڑکی کو  نکاح کے موقع پر مہر کے علاوہ جو  زیورات سسرال والوں کی طرف سے ملتے ہیں، ان میں یہ تفصیل ہے کہ اگر  زیورات دیتے وقت  سسرال والوں نے اس بات  کی صراحت کی تھی کہ یہ  بطورِ عاریت یعنی صرف  استعمال کرنے کے لیے ہیں  تو  پھر یہ  زیورات لڑکے والوں کی ملکیت ہوں گے، اور اگرسسرال والوں نےہبہ ، گفٹ اور  مالک بناکر دینے کی صراحت کردی تھی تو پھر ان زیورات  کی مالک لڑکی ہوگی، اور اگر  زیورات دیتے وقت کسی قسم کی صراحت نہیں  کی تھی   تو پھر لڑکے کے خاندان کے عرف کا اعتبار ہوگا، اگر ان کا عرف و رواج بطورِ ملک دینے کا ہے  یا ان کا کوئی رواج نہیں ہے تو ان دونوں صورتوں میں زیورات کی مالک لڑکی ہوگی، اور اگر  بطورِ عاریت دینے کا رواج ہے تو پھر سسرال والے ہی مالک ہوں گے،اس صورت میں یہ زیورات لڑکے والے واپس لے سکتے ہیں۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(والخلوة) مبتدأ خبره قوله الآتي كالوطء  ... (كالوطء) فيما يجيء ...... في (تأكد المهر) المسمى (و) مهر المثل بلا تسمية و (النفقة والسكنى والعدة وحرمة نكاح أختها وأربع سواها) في عدتها ...... وكذا في وقوع طلاق بائن آخر على المختار".

(قوله وفي تأكد المهر) أي في خلوة النكاح الصحيح، أما الفاسد فيجب فيه مهر المثل بالوطء لا بالخلوة كما سيذكره المصنف في هذا الباب لحرمة الوطء فيه، فكان كالخلوة بالحائض (قوله والعدة) وجوبها من أحكام الخلوة سواء كانت صحيحة أم لا ط: أي إذا كانت فيه نكاح صحيح، أما الفاسد فتجب فيه العدة بالوطء كما سيأتي".

(كتاب النكاح، باب المهر،3/ 114، 117، 118،ط: سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإذا بعث الزوج إلى أهل زوجته أشياء عند زفافها منها ديباج فلما زفت إليه أراد أن يسترد من المرأة الديباج ليس له ذلك إذا بعث إليها على جهة التمليك۔"

( كتاب النكاح،الفصل السادس عشر فی جھاز البنت،ج:1،ص:327،ط:رشیدیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

"قلت: ومن ذلك ما يبعثه إليها قبل الزفاف في الأعياد والمواسم من نحو ثياب وحلي، وكذا ما يعطيها من ذلك أو من دراهم أو دنانير صبيحة ليلة العرس ويسمى في العرف صبحة، فإن كل ذلك تعورف في زماننا كونه هدية لا من المهر، ولا سيما المسمى صبحة، فإن الزوجة تعوضه عنها ثيابها ونحوها صبيحة العرس أيضا۔"

(کتاب النکاح،باب المہر،ج:3،ص:153،ط:سعید)

وفیہ أیضاً:

"والمعتمد البناء على العرف كما علمت"

(کتاب النکاح،باب المہر،ج:3،ص:157،ط:سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144307100656

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں