بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بڑی بند گلی جس سے ایک چھوٹی بند گلی نکلتی ہو اس چھوٹی گلی کے سرے پر واقع گھر والے کا بڑی بند گلی میں دروازہ نکالنے کا حکم


سوال

ایک بڑی گلی ہے ،جس کے آخر میں ہمارے دوگھر ہیں اور وہ گلی ہمار ےگھر پر ختم ہورہی ہے،ہمارے دونوں گھروں کے دروازے اسی بند گلی میں ہیں اور ہمارے گھروں سے پہلے اس بڑی گلی سے ایک چھوٹی گلی نکل رہی ہے ،جو آخر میں چند گھروں پر جاکر ختم ہوجاتی ہے،اب ایک تیسرا گھر ہے جو اس چھوٹی گلی کے سرے پر واقع ہےاور اس تیسرے گھر کا دروازہ اسی چھوٹی بند گلی  میں نکلا ہواہے،ہماری اس بڑی بند گلی میں اس تیسرے گھر والے کا کوئی دروازہ نہیں ہے،اب یہ تیسرے گھر والے ہماری اس بند گلی کی جانب اپنا دروازہ کھولنا چاہتے ہیں اور چھجہ بنانا چاہتے ہیں اور یہ ہم نہیں چاہتے ہیں کہ وہ ہماری گلی میں دروازہ کھولیں اور مزید یہ کہ وہ چھجہ بنالیں،تو کیا شرعی اعتبار سے اس تیسرے گھر والے کا اس بند گلی کی طرف دروازہ کھولنا اور چھجہ بنانا جائز ہے یا نہیں؟شرعی راہ نمائی فرمادیں۔

نقشہ ملاحظہ ہو:

جواب

واضح رہے کہ ایک بڑی گلی جو آرپار نہ ہو اور اس سے ایک ایسی ہی  چھوٹی گلی نکلتی ہو جو آرپار نہ ہو اور اس چھوٹی گلی کے کونے پر ایک گھر ہو ،جس کا دروازہ اس چھوٹی گلی میں ہو ،اب اگر وہ اس بڑی گلی میں اپنا دروازہ کھولنا چاہے تو اس کے لیےاس بڑی گلی  یہ دروازہ کھولنا جائز نہیں،جب تک کہ بڑی گلی والے اسے اجازت نہ دے دیں،لہذا صورتِ مسئولہ میں اس تیسرے گھر والے کے لیے اس بڑی بند گلی میں اس بڑی گلی والوں کی اجازت کے بغیر اپنے گھر کا  دروازہ اور چھجہ نکالنا شرعاً درست نہیں ۔

منحۃ الخالق علی حاشیۃ البحر الرائق  میں ہے:

"وأما الدار التي في الجهة الثانية المتصلة بركن المتشعبة إذا كان بابها من الزائغة الأولى المستطيلة فليس له فتح باب في المتشعبة؛ لأنه لا حق له في المرور فيها وكذا إذا كان بابها في المتشعبة ليس له فتح باب في الأولى المستطيلة إذ لا حق له في المرور أيضا لكن هذا مبني على ما ذكره المؤلف من أن الأولى المستطيلة غير نافذة أيضا إذ لو كانت نافذة فالذي باب داره في المتشعبة يكون له المرور من الجهتين فله فتح باب في المستطيلة ثم رأيت منقولا عن شرح المقدسي عند قوله بخلاف أهل القصوى إلخ هذا إذا فتح في جانب يدخل منه إليها أما في الجانب الآخر غير النافذ فلا. اهـ. وهذا عين ما قلنا وبه ظهر الفرق بين كون الأولى نافذة أو غير نافذة خلافا لما يفهمه ما قدمناه عن الرملي فاغتنم هذه الفائدة."

(كتاب القضاء،باب التحكيم،مسائل شتي من كتاب القضاء،31/7،ط:دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی شامی میں ہے:

"قال العلامة المقدسي: هذا إذا فتح في جانب يدخل منه إليها، أما في الجانب الآخر غير النافذ فلا اهـ وفيه فائدة حسنة يفيدها التعليل أيضا، وهي أن الزائغة الأولى إذا كانت غير نافذة وأراد واحد من أهل القصوى فتح باب في الأولى له ذلك إن كانت داره متصلة بركن الأولى، وكانت من جانب الدخول إلى القصوى أما لو كانت من الجانب الثاني فلا، إذ لا حق له في المرور في الجانب الثاني، بخلاف ما إذا كانت الأولى نافذة فإن له المرور من الجانبين، فيكون له فتح الباب من الجانب الثاني أيضا، وبه يظهر الفرق بين كون الأولى نافذة أو لا خلافا لما مر عن الرملي، والظاهر أن كلام الفتح مبني على كون الأولى نافذة وإن حمل على أنها غير نافذة يدعى تخصيصه بغير الصورة المذكورة."

(كتاب القضاء،باب التحكيم،مسائل متفرقة،446/5،ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144312100099

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں