بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بڑے حوض میں بلی گر کر مرجائے


سوال

 ہمارے  گھر میں ایک حوض  دس بائی  دس سے بڑا ہے،  اس میں ایک    مرتبہ بلی مرگئی  جس  سے ہمارے ذمے  بہت سی نمازیں قضا ہیں،  لیکن ابھی معلوم نہیں کتنی ہیں،  اب ہم کیا کریں؟

جواب

مذکورہ حوض  کا رقبہ چوں کہ دس بائے دس (   225 اسکوائر فٹ)  سے زیادہ ہے؛ اس لیے اس کے پانی کا حکم جاری پانی والا ہوگا،  یعنی اگر اس میں نجاست گر بھی جائے  تو جب تک رنگ ، بو یا مزے میں سے کسی بھی ایک وصف میں اس نجاست کا اثر ظاہر نہ ہو،  پانی ناپاک نہیں ہوتا  اور  اگر اثر ظاہر ہوجائے تو پانی ناپاک ہوجاتا ہے ، لہٰذا صورتِ  مسئولہ میں اگر پانی میں اس نجاست کے  اثرات  ظاہر نہیں ہوئے تھے تو  اس پانی سے وضو یا غسل کر کے  پڑھی گئی نمازیں درست ہوگئی  تھیں،  اور اگر پانی کے کسی ایک وصف میں نجاست کا اثر ظاہر ہوگیا تھا تو اس صورت میں وہ پانی  ناپاک ہوگیا تھا ،اس ناپاک پانی سے وضو یا غسل کرکے، یا اس پانی سے دھلے ہوئے کپڑوں میں جتنی نمازیں پڑھی ہیں ان کا اعادہ ضروری ہے۔ ٹنکی میں بلی کے گرکر مرنے  کا وقت اگر معلوم ہوتو اس وقت سے، ورنہ  ایک  دن ایک رات کی  نمازیں لوٹانا ہوں گی بشرطیکہ بلی پھولی پھٹی نہ ہو، لیکن اگر بلی پھول پھٹ چکی تھی تو پھر تین دن اور تین رات کی نمازیں لوٹانا لازم ہوں گی۔

حلبی کبیر میں ہے:

 "وإذا کان الحوض عشراً في عشر فهو کبیر لایتنجس بوقوع النجاسة ... إذا لم یرلها أثر".

( حلبي کبیر ، فصل في أحکام الحياض، ص: ۹۸، ط سهیل أکادمي، لاهور)

المحيط البرهاني للإمام برهان الدين ابن مازة (1/ 87):

"يجب أن يعلم أن الماء الراكد إذا كان كثيراً فهو بمنزلة الماء الجاري لا يتنجس جميعه بوقوع النجاسة في طرف منه إلا أن يتغير لونه أو طعمه أو ريحه. على هذا اتفق العلماء، وبه أخذ عامة المشايخ، وإذا كان قليلاً فهو بمنزلة الحباب و الأواني يتنجس بوقوع النجاسة فيه وإن لم تتغير إحدى أوصافه".

«حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي» (1/ 218):

"(وَيُحْكَمُ بِنَجَاسَتِهَا) مُغَلَّظَةً (مِنْ وَقْتِ الْوُقُوعِ إنْ عُلِمَ، وَإِلَّا فَمُذْ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ إنْ لَمْ يَنْتَفِخْ وَلَمْ يَتَفَسَّخْ) وَهَذَا (فِي حَقِّ الْوُضُوءِ) وَالْغُسْلِ؛ وَمَا عُجِنَ بِهِ فَيُطْعَمُ لِلْكِلَابِ؛ وَقِيلَ يُبَاعُ مِنْ شَافِعِيٍّ، أَمَّا فِي حَقِّ غَيْرِهِ كَغَسْلِ ثَوْبٍ فَيُحْكَمُ بِنَجَاسَتِهِ فِي الْحَالِ» وَهَذَا لَوْ تَطَهَّرَ عَنْ حَدَثٍ أَوْ غَسَلَ عَنْ خَبَثٍ، وَإِلَّا لَمْ يَلْزَمْ شَيْءٌ إجْمَاعًا جَوْهَرَةٌ. (وَمُذْ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ) بِلَيَالِيِهَا (إنْ انْتَفَخَ أَوْ تَفَسَّخَ) اسْتِحْسَانًا".

(الدر المختار مع الشامی، فصل فی البئر،   ۱/ ۲۱۸)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107201262

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں