بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بارش کی وجہ سے جمع بین المغربین کا حکم


سوال

بارش کی وجہ سے صلوۃالمغربین پڑھنا کیسا ہے یعنی نماز مغرب کے بعد فوراً عشاء کی جماعت کرانا کیساہے؟

جواب

واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام نمازوں کے اوقات مقرر کردیے ہیں  اور نمازوں کو ان کے اوقات ہی میں پڑھنے کی قرآن وحدیث میں تاکید آئی ہے اور دو نمازوں کو ایک وقت میں جمع کرنے کو گناہِ کبیرہ قرار دیا ہے،البتہ حج کے موقع پر عرفہ میں ظہر و عصر کو جمع کرنے اور مزدلفہ میں مغرب و عشاء کو جمع کرنے کی اجازت دی گئی ہے،لیکن یہ حج کے ساتھ خاص ہے،ا س کے علاوہ  کسی بھی عذر مثلاً سفر یا بارش کی وجہ سے دو نمازوں کو ایک ہی وقت میں پڑھنا جائز نہیں ہے،باقی جو بعض روایات میں جمع بین الصلاتین کا ذکر آیا ہے تو اس سے جمع صوری مراد ہے یعنی ہر نماز کو اپنے وقت ہی میں پڑھا  جائے ،البتہ پہلی نماز کو اس کے آخری وقت میں اور دوسری نماز کو اس کے ابتدائی  وقت میں پڑھا  جائے ،جمع حقیقی یعنی دو نمازوں کو ایک ہی وقت میں پڑھنا حج کے علاوہ کسی موقع پر جائز نہیں ۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں بارش کی وجہ سے جمع بین المغربین یعنی ایک ہی نماز کے وقت میں  مغرب کے فوراً بعد عشاء کی جماعت کرانا جائز نہیں ہے،البتہ اگر تیز بارش ہو اور اس کی وجہ سے مغرب اور عشاء کے لیے بار بار جمع ہونا مشکل ہو تو مغرب کی نماز کو آخری وقت میں اور عشاء کی نماز کو اول وقت میں پڑھنے کی گنجائش ہوگی۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"إِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا" (النساء:103)

ترجمہ: "یقیناً نماز مسلمانوں پر فرض ہےاور وقت کے ساتھ محدود ہے۔" ( بیان القرآن )

ترمذی شریف میں ہے:

"عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «‌من ‌جمع ‌بين الصلاتين من غير عذر فقد أتى بابا من أبواب الكبائر»."

(أبواب الصلاة، باب ما جاء في الجمع بين الصلاتين،145/1،ط: رحمانية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و لا جمع بين فرضين في وقت بعذر) سفر ومطر خلافا للشافعي، وما رواه محمول على الجمع فعلا لا وقتا (فإن جمع فسد لو قدم) الفرض على وقته (وحرم لو عكس) أي أخره عنه (وإن صح) بطريق القضاء (إلا لحاج بعرفة ومزدلفة) كما سيجيء.

(قوله: وما رواه) أي من الأحاديث الدالة على التأخير كحديث أنس «أنه صلى الله عليه وسلم كان إذا عجل السير يؤخر الظهر إلى وقت العصر فيجمع بينهما، ويؤخر المغرب حتى يجمع بينها وبين العشاء» وعن ابن مسعود مثله...(قوله: محمول إلخ) أي ما رواه مما يدل على التأخير محمول على الجمع فعلا لا وقتا: أي فعل الأولى في آخر وقتها والثانية في أول وقتها، ويحمل تصريح الراوي بخروج وقت الأولى على التجوز كقوله تعالى:  {فإذا بلغن أجلهن}  أي قاربن بلوغ الأجل أو على أنه ظن، ويدل على هذا التأويل ما صح «عن ابن عمر أنه نزل في آخر الشفق فصلى المغرب ثم أقام العشاء وقد توارى الشفق، ثم قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا عجل به السير صنع هكذا» " وفي رواية " ثم انتظر حتى غاب الشفق وصلى العشاء " كيف وقد قال صلى الله عليه وسلم: «ليس في النوم تفريط، إنما التفريط في اليقظة، بأن تؤخر صلاة إلى وقت الأخرى» رواه مسلم، وهذا قاله و هو في السفر ... و قد أنكرت عائشة على من يقول بالجمع في وقت واحد. وفي الصحيحين «عن ابن مسعود والذي لا إله غيره ما صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة قط إلا لوقتها إلا صلاتين جمع بين الظهر والعصر بعرفة، وبين المغرب والعشاء بجمع» " ويكفي في ذلك النصوص الواردة بتعيين الأوقات من الآيات والأخبار، وتمام ذلك في المطولات كالزيلعي وشرح المنية. وقال سلطان العارفين سيدي محيي الدين نفعنا الله به: والذي أذهب إليه أنه لا يجوز الجمع في غير عرفة ومزدلفة؛ لأن أوقات الصلاة قد ثبتت بلا خلاف، ولا يجوز إخراج صلاة عن وقتها إلا بنص غير محتمل؛ إذ لا ينبغي أن يخرج عن أمر ثابت بأمر محتمل، هذا لا يقول به من شم رائحة العلم، وكل حديث ورد في ذلك فمحتمل أنه يتكلم فيه مع احتمال أنه صحيح، لكنه ليس بنص اهـ كذا نقله عنه سيدي عبد الوهاب الشعراني في كتابه الكبريت الأحمر في بيان علوم الشيخ الأكبر."

(كتاب الصلاة،381/1،ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144407100337

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں