بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بریلوی امام کےپیچھے نمازجائزہونے نہ ہونے میں علماء کااختلاف کی صورت کس کے قول پرعمل کیاجائے


سوال

 دو عالم ہیں ،ایک عالم فرماتے ہیں کہ بریلوی کے پیچھے نماز پڑھ سکتے ہیں ،اور دوسرے عالم فرماتے ہیں کہ نماز نہیں پڑھناہے،جبکہ دونوں اکابرین کے حوالے دیتے ہیں،تو اس صورت میں کس کی بات پر عمل کیا جائے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  اگر بریلوی  امام شرکیہ عقائد رکھتا ہے ،یعنی  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی کی مانند ہر  جگہ  حاضر و ناظر ،عالم الغیب  اور مختار کل سمجھتا ہے تو یہ  شرک ہے ،جان بوجھ کر ایسے عقائد  رکھنے  والے امام کی اقتداء میں نماز پڑھنا جائز نہیں ہے ،پڑھنے کی صورت میں لوٹا نا لازم ہوگا ۔لیکن اگر  بریلوی امام شرکیہ عقائد نہیں رکھتا ہے ،صرف بدعات میں مبتلا ہے تو اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے ،کسی صحیح العقیدہ، متقی، پرہیزگار امام کے پیچھے نماز پڑھنے کی کوشش کرنی چاہیے،  اگر کہیں اور باجماعت نماز کا موقع میسر نہ ہو تو مذکورہ امام کی اقتدا میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا اکیلے نماز پڑھنے سے بہتر ہے،البتہ متقی صحیح العقیدۃ امام کے پیچھے نماز پڑھنے سے جتنا ثواب ملتا ہے ،اتنا ثواب نہیں ملے گا ،لہذااگربریلوی امام شرکیہ عقائد رکھتاہویاشرکیہ عقائدتونہیں رکھتے لیکن اہل ہوا اوربدعتی ہے،پھراگرقریب میں کوئی اہل السنت والجماعت دیوبندی مسلک کی مسجدہے تواس صورت میں جو عالم بریلوی کے پیچھے نمازپڑھنے کونا جائزکہتے ہیں اس کے قول عمل کیاجائے ،اوراگرعقائدشرکیہ نہیں ہے لیکن بدعت میں مبتلاہے اورقریب میں کوئی اہل السنت والجماعت دیوبندی مسلک کی مسجدنہیں ہے توجوعالم بریلوی کے پیچھے نمازپڑھنے کوجائزکہتے ہیں اس کے قول پرعمل کیاجائے،اورکوشش کی جائےکسی صحیح العقیدہ، متقی، پرہیزگار امام کے پیچھے نماز پڑھے   ۔

 البحر الرائق میں ہے:

"(قوله: وكره إمامة العبد والأعرابي والفاسق والمبتدع والأعمى وولد الزنا) بيان للشيئين الصحة والكراهةأما الصحة فمبنية على وجود الأهلية للصلاة مع أداء الأركان وهما موجودان من غير نقص في الشرائط والأركان ... وأطلق المصنف في المبتدع فشمل كل مبتدع هو من أهل قبلتنا، وقيده في المحيط والخلاصة والمجتبى وغيرها بأن لاتكون بدعته تكفره فإن كانت تكفره فالصلاة خلفه لاتجوز، وعبارة الخلاصة هكذا، وفي الأصل: الاقتداء بأهل الأهواء جائز إلا الجهمية والقدرية والروافض الغالي ومن يقول بخلق القرآن والخطابية والمشبهة.

وجملته أن من كان من أهل قبلتنا ولم يغل في هواه حتى يحكم بكفره تجوز الصلاة خلفه وتكره ولا تجوز الصلاة خلف من ينكر شفاعة النبي أو ينكر الكرام الكاتبين أو ينكر الرؤية لأنه كافر."

(كتاب الصلاة، باب الإمامة (1/ 370)،ط. دار المعرفة، بيروت)

فتاوى ہنديه میں ہے:

"قال المرغيناني: تجوز الصلاة خلف صاحب هوى وبدعة ولا تجوز خلف الرافضي والجهمي والقدري والمشبهة ومن يقول بخلق القرآن وحاصله إن كان هوى لا يكفر به صاحبه تجوز الصلاة خلفه مع الكراهة وإلا فلا. هكذا في التبيين والخلاصة وهو الصحيح."

(كتاب الصلاة، الباب الخامس في الإمامة، الفصل الثالث في بيان من يصلح إماما لغيره (1/ 84)،ط, رشيديه)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: نال فضل الجماعة) أفاد أن الصلاة خلفهما أولى من الانفراد لكن لاينال كما ينال خلف تقي ورع."

(كتاب الصلاة، باب الإمامة (1/ 562)،ط. سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144401100875

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں