بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بریلوی مسلک کے لڑکے سے نکاح کرکے طلاق یا خلع لینا


سوال

 ایک عالمہ لڑکی ہے اس نے کسی لڑکے کے ساتھ بھاگ کر نکاح کیا ۔تو میکے والوں نے لڑکی کےساتھ تعلق ختم کردیا ۔دس مہینے بعد طلاق ہوگئی ۔پھر لڑکی دارالامان گئی ۔وہاں کچھ عرصہ گزارا۔پھر وہاں کسی خاتون نے اس کا نکاح کرایا ۔نہ لڑکا دکھایا تھا اور نہ ان کے عقیدہ کے بارے میں کچھ بتاتھا ۔جب نکاح ہوا تو معلوم ہوا کہ لڑکا اندھا بھی ہے اور کٹر بریلوی بھی ہے جبکہ لڑکی دیوبندی ہے اور عالمہ ہے ۔پھر پانچ سال کے بعد لڑکی کا تعلق میکے والوں کے ساتھ بحال ہوگیا۔ تو اب میکے والے چاہ رہے ہیں کہ لڑکی کا خاوند سے خلع دلواکر کسی دیوبندی سے شادی کرا لے اور لڑکی بھی یہی چاہتی ہے کہ میں خاوند سے خلع لے لوں۔ تو یہ خلع لینا کیسا ہے شرعی اعتبار سے اس میں گناہ تو نہیں ہے۔

جواب

واضح رہے کہ بریلوی حضرات اپنے  بعض عقائد کی بناء پر  گم راہ اور غلطی پرہیں، لیکن کافر اور مرتد نہیں، ضرورت کے تحت ان سے اسلامی تعلقات، نکاح وشادی، کھانا پینا اور دوسرے معاملات سب جائز ہیں،اس لیے صورت مسئولہ میں موجودہ نکاح جائز ہے،البتہ اگرمیاں بیوی کے درمیان ذہنی ومذہبی  ہم آہنگی نہیں ہورہی اور مسلک میں اختلاف ہونے کی صورت میں نکاح کے رشتہ میں نباہ اور دوام مشکل ہورہا ہے،تو ایسی صورت میں طلاق یا خلع کا مطالبہ کرنا جائز ہے،باقی خلع دیگر معاملات کی طرح ایک معاملہ ہے جس میں بیوی شوہر کو مالی معاوضہ دے کر آزادی کی پیش کش کرتی ہے اور شوہر اسے قبول کرکے عورت کو آزاد کردیتا ہے، یہ معاملہ فریقین (میاں بیوی) کی باہمی رضا سے ہی مکمل ہوتا ہے، عدالت شوہر کی مرضی کے خلاف اگر بیوی کو آزادی دیتی ہے تو یہ آزادی شرعاً خلع نہ ہوگی اور بیوی بدستور شوہر کے نکاح میں باقی رہے گی۔

الدر المختار   وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"(ولا بأس به عند الحاجة) للشقاق بعدم الوفاق.

(قوله: للشقاق) أي لوجود الشقاق وهو الاختلاف والتخاصم. وفي القهستاني عن شرح الطحاوي: السنة إذا وقع بين الزوجين اختلاف أن يجتمع أهلهما ليصلحوا بينهما، فإن لم يصطلحا جاز الطلاق والخلع. اهـ. ط، وهذا هو الحكم المذكور في الآية، وقد أوضح الكلام عليه في الفتح آخر الباب....."

( کتاب الطلاق،باب الخلع،ج3،ص441،ط:سعید)

فتاویٰ مفتی محمود میں ہے:

"دیوبندی اور بریلوی دونوں مسلمان ہیں، آپس میں ان کا نکاح رشتے ناطے سب جائز ہیں"۔

 (باب الحظر والاباحۃ ج: 10، ص: 390، ط: جمعیۃپبلیکیشنز)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502101834

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں