بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بریلوی امام کے پیچھے نماز کا حکم


سوال

اگر بریلوی امام کے عقائد شرکیہ ہوں تو اس کے پیچھے نماز ہو جائے گی؟

جواب

 واضح رہے کہ اگر بریلوی امام شرکیہ عقائد رکھتا ہوں مثلًا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی  مانند  ہر جگہ حاضر ناظر ، عالم الغیب اور مختار کل سمجھتا ہے تو یہ شرک ہے؛ کیوں کہ اللہ ایک ہے، اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہے، اس صورت میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ حاضر ناظر ، عالم الغیب اور مختار کل ہونے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی شریک ہو جاتے ہیں، اور کلمہ طیب اور کلمہ شہادت کی شہادت کے خلاف ہو جاتا ہے، اس لیے جان بوجھ کر ایسے عقائد رکھنے والے امام کی اقتدا میں نماز پڑھنا جائز نہیں ہے ، پڑھنے کی صورت میں لوٹا نا لا زم ہوگا ، اور اگر امام کے عقیدے کا علم نہیں  اور پڑھ لی تو    ہوجائے گی،  لوٹانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله وكره إمامة العبد والأعرابي والفاسق والمبتدع والأعمى وولد الزنا) بيان للشيئين الصحة والكراهة أما الصحة فمبنية على وجود الأهلية للصلاة مع أداء الأركان وهما موجودان من غير نقص في الشرائط والأركان.......وأطلق المصنف في المبتدع فشمل كل مبتدع هو من أهل قبلتنا وقيده في المحيط والخلاصة والمجتبى وغيرها بأن لا تكون بدعته تكفره، فإن كانت تكفره فالصلاة خلفه لا تجوز وعبارة الخلاصة هكذاوفي الأصل الاقتداء بأهل الأهواء جائز إلا الجهمية والقدرية والروافض الغالي ومن يقول بخلق القرآن والخطابية والمشبهة وجملته أن من كان من أهل قبلتنا ولم يغل في هواه حتى يحكم بكفره تجوز الصلاة خلفه وتكره، ولا تجوز الصلاة خلف من ينكر شفاعة النبي - صلى الله عليه وسلم - أو ينكر الكرام الكاتبين أو ينكر الرؤية؛ لأنه كافر."

(کتاب الصلوۃ ، باب الامامة جلد ۱ ص: ۳۶۹ ، ۳۷۰ ط: دارالکتاب الاسلامي)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507100535

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں