بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بریلوی امام کے پیچھے پڑھی گئی نمازوں کاحکم


سوال

کیا بریلوی امام کے پیچھے نماز پڑھ سکتے ہیں؟اگر کسی بریلوی امام کے عقیدہ کے بارے میں پتہ نہ  ہو تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ رہنمائی فرما دیں اور جو نمازیں بریلوی امام کے پیچھے پڑی ہیں کیا وہ دوبارہ ادا کرنی پڑے گی؟

جواب

 واضح رہے کہ اگر بدعتی امام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کے مانند ہر جگہ حاضر ناظر ، عالم الغیب اور مختار کل سمجھتا ہے تو یہ شرک ہے ، کیونکہ اللہ ایک ہے اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہے، اس صورت میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ حاضر ناظر ، عالم الغیب اور مختار کل ہونے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی شریک ہو جاتے ہیں، اور کلمہ طیب اور کلمہ شہادت کی شہادت کے خلاف ہو جاتا ہے، اس لیے جان بوجھ کر ایسے عقائد رکھنے والے امام کی اقتداء میں نماز پڑھنا جائز نہیں ہے ، پڑھنے کی صورت میں لوٹا نا لا زم ہوگا ، اور اگرلاعلمی میں پڑھ لی تو   ہوجائے گی لوٹانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔

اور اگر بدعتی امام موحد ہے شرکیہ عقائد نہیں رکھتا ہے صرف تیجہ ، چالیسواں وغیرہ جیسی بدعات میں مبتلا ہے تو اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے صحیح عقیدہ والا امام مل جائے تو بدعتی امام کی اقتداء میں نماز نہیں پڑھنی چاہیے اور اگر صحیح عقیدہ والا امام نہ ملے تو مجبوراً ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھ لے ، جماعت نہ چھوڑے ایسی صورت میں نماز  دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں ہوگی،  البتہ متقی پرہیز گار امام کے پیچھے نماز پڑھنے سے جتنا ثواب ملتا ہے اتنا ثواب نہیں ملے گا۔ بدعتی کو امام بنانا مکروہ تحریمی ہے ، ہاں اگر حاضرین میں سارے بدعتی  ہیں متقی پر ہیز گار کوئی نہیں تو اس صورت میں بدعتی امام کی امامت بدعتی مقتدیوں کے لیے مکروہ نہیں ہوگی ۔ 

الدر مع الرد میں ہے:

"وكذا كل صلاة أديت مع كراهة التحريم تجب إعادتها...... وفي الرد: (قوله: وكذا كل صلاة إلخ) ۔۔۔ الا أن يدعي تخصيصها بأن مرادهم بالواجب والسنة التي تعاد بتركه ما كان من ماهية الصلاة وأجزائها، فلا يشمل الجماعة؛ لأنها وصف لها خارج عن ماهيتها."

(ردالمحتار، کتاب الصلاة، باب صفة الصلاة،مطلب کل صلاة اديت مع كراهة التحريم تجب اعادتها،ج:1، ص:457، ط: سعید)

وفيه ايضا:

"(ويكره ... إمامة عبد ... وفاسق ... ومبتدع ...).

و فی الرد: وأما الفاسق فقد عللوا كراهة تقديمه بأنه لا يهتم لأمر دينه، وبأن في تقديمه للإمامة تعظيمه، وقد وجب عليهم إهانته شرعا، و لايخفى أنه إذا كان أعلم من غيره لاتزول العلة، فإنه لايؤمن أن يصلي بهم بغير طهارة فهو كالمبتدع تكره إمامته بكل حال، بل مشى في شرح المنية على أن كراهة تقديمه كراهة تحريم لما ذكرنا قال: و لذا لم تجز الصلاة خلفه أصلا عند مالك ورواية عن أحمد، فلذا حاول الشارح في عبارة المصنف وحمل الاستثناء على غير الفاسق."

(رد المحتار، کتاب الصلاة، باب الإمامة، ج:1، ص:559، ط: سعید)

الدر المختار  میں ہے:

"(ومبتدع)أي صاحب بدعة، وهي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول لا بمعاندة بل بنوع شبهة، وكل من كان من قبلتنا (لا يكفر بها) حتى الخوارج الذين يستحلون دماءنا وأموالنا وسب الرسول، وينكرون صفاته تعالى وجواز رؤيته؛ لكونه عن تأويل وشبهة؛ بدليل قبول شهادتهم ... هذا إن وجد غيرهم وإلا فلا كراهة، بحر بحثاً."

(کتاب الصلاة، باب الإمامة، ج:1، ص:560، ط: سعید)

الدر مع الرد میں ہے:

"وفي النهر عن المحيط: صلى خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعة.(قوله نال فضل الجماعة) أفاد أن الصلاة خلفهما أولى من الانفراد، لكن لا ينال كما ينال خلف تقي ورع لحديث «من صلى خلف عالم تقي فكأنما صلى خلف نبي» قال في الحلية: ولم يجده المخرجون نعم أخرج الحاكم في مستدركه مرفوعا «إن سركم أن يقبل الله صلاتكم فليؤمكم خياركم، فإنهم وفدكم فيما بينكم وبين ربكم»اهـ."

(رد المحتار،کتاب الصلاة، باب الإمامة، ج:1، ص:562، ط: سعید)

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله: ‌وكره ‌إمامة ‌العبد ‌والأعرابي والفاسق والمبتدع والأعمى وولد الزنا) بيان للشيئين الصحة والكراهة أما الصحة فمبنية على وجود الأهلية للصلاة مع أداء الأركان وهما موجودان من غير نقص في الشرائط والأركان...وأطلق المصنف في المبتدع فشمل كل مبتدع هو من أهل قبلتنا وقيده في المحيط والخلاصة والمجتبى وغيرها بأن لا تكون بدعته تكفره، فإن كانت تكفره فالصلاة خلفه لا تجوز. وعبارة الخلاصة هكذا:وفي الأصل الاقتداء بأهل الأهواء جائز إلا الجهمية والقدرية والروافض الغالي ومن يقول بخلق القرآن والخطابية والمشبهة. وجملته أن من كان من أهل قبلتنا ولم يغل في هواه حتى يحكم بكفره تجوز الصلاة خلفه وتكره، ولا تجوز الصلاة خلف من ينكر شفاعة النبي - صلى الله عليه وسلم - أو ينكر الكرام الكاتبين أو ينكر الرؤية؛ لأنه كافر."

(کتاب الصلاۃ، باب الإمامة، ج:1، ص:611،610، ط: دار الكتب العلمية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144408101583

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں